محمد یاسین ماگرے
ڈوڈہ، جموں
ہمارے سماج میں بہت سارے مسائل ہیں۔ ان میں سے ایک مسئلہ ایسا ہے جو دوسرے بہت سارے مسائل کو جنم دیتا ہے اور یہ مسئلہ بیروزگاری کا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق جموں و کشمیر میں بہت سارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بیروزگار ہیں۔ سرکاری ادارے ہوں یا نجی دفاتر، بیشتر اعلیٰ نوکری کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اپنی حاصل کردہ ڈگریوں کو وہ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ محنت سے کمایا ہوا پیسہ، طاقت اور دوسرے وسائل کو بروئے کار لاکر نوجوانوں نے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کی تھی،مگر اب حالات ایسے ہیں کہ وہ اپنا پیٹ بھی نہیں پال سکتے ہیں۔ ان جوانوں کی زندگیوں میں کیا بیت رہی ہے، صرف وہی جانتے ہیں۔ اپنی فکر، ماں باپ کی فکر، بھائی بہنوں کی فکر اور سماج کے توقعات پر کھرا اترنا، ایک جوان کو چین سے جینے نہیں دیتے ہیں۔ کب تک ایک جوان ماں باپ کی کمائی پر پلتا رہے گا؟ کب اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا خواب پورا ہوگا؟ کب وہ اپنی کمائی سے ماں باپ کو خوش کرے گا؟ اس حوالے سے سماجی کارکن نشات حسین نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے بہت سے دوسرے یو ٹی کی طرح جموں وکشمیر میں بھی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری ایک اہم تشویش ہے۔ ہمارا یو ٹی جموں و کشمیر جغرافیائی اور اقتصادی طور پر پسماندہ ہے اس کے دور دراز پہاڑی علاقے اور اس کے بہت سے حصوں سے ناقص رابطے کی وجہ سے بے روزگاری کا مسئلہ کئی وجوہات کی بناء پر برسوں سے گھمبیر ہوا ہے کیونکہ کام کے مواقع کی رفتار آبادی میں اضافے اور شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں پڑھے لکھے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے ساتھ مقابلہ نہیں کر پا رہی ہے۔ ملازمت کے مواقع میں اضافہ ناکافی رہا ہے اور افرادی قوت میں اضافے کے ساتھ رفتار برقرار نہیں رکھتا ہے۔ بنیادی طور پر، اس کے پسماندہ جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے، ہمارا جموں و کشمیر صنعتی ترقی میں ملک کے دیگر یو ٹی کے ساتھ رفتار برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ واضح وجوہات کی بنا پر، کارپوریٹ سیکٹر یو ٹی میں بھاری اور بڑی صنعتیں قائم کرنے میں دلچسپی نہیں دکھا رہا ہے۔ یو ٹی کے محدود وسائل پبلک سیکٹر میں بڑے پیمانے پر ملازمت کے مواقع کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
ایک اورسماجی کارکن طالب حسین نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئی کہاں ہے کہ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں مسائل کی کوئی کمی نہیں ہے، عوامی مسائل کے انبار ہیں۔ آزادی کے 75 سال بعد بھی عام لوگوں کو بنیادی سہولتیں تک دستیاب نہیں ہیں۔ الیکشن پر الیکشن ہو رہے ہیں لیکن مسائل جوں کے توں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہر الیکشن میں ووٹروں کوان مسائل کے خاتمہ کے لیے نام نہاد وعدے کئے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور ابھی تک جاری ہے۔لیکن مسائل اور ایشوز جہاں تھے، وہیں برقرار ہیں۔ ابھی سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری کا ہے۔ ملک میں بے روزگاری بے قابو ہوتی جا رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پہلے بے روزگاری کا مسئلہ نہیں تھا لیکن اب یہ ناسور کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر نوجوان طبقہ اتنا عاجز اور پریشان ہو چکا ہے کہ وہ اب سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ بے روزگاری کا مسئلہ اب اتنا خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے کہ اس کا سامنا کرنا ہمارے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔بے روزگاری کا مسئلہ صرف بڑھتی آبادی تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہمارا نظام اور اس میں موجود خامیاں بھی اس کے لیے خاص طور پر ذمہ دار ہیں۔ بدعنوانی ایسی ہی ایک سماجی اور اخلاقی برائی ہے۔ بڑھتی بے روزگاری کا مسئلہ راست طور پر بدعنوانی سے وابستہ ہے۔ بدعنوانی جتنی تیزی سے پھل پھول رہی ہے، روزگار کی تعداد اسی رفتار سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ سرکار دیہی علاقوں میں لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے روزگار سے متعلق مختلف اسکیمیں اور پروجیکٹ چلاتی ہے لیکن بدعنوانی کے سبب یہ کوششیں درحقیقت ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔ ہندوستان میں بے روزگاری کو بڑھتی آبادی، بڑے پیمانے پر نا خواندگی اور بدعنوانی یکساں طور پر تقویت پہنچارہی ہیں۔ اگر ان سبھی عوامل میں سے کم از کم ایک سے بھی سنجیدگی کے ساتھ نمٹنے کی کوشش کی جائے تو بے روزگاری کے مسئلہ کو ختم کرنے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔
اس حوالے سے ایک سیاسی لیڈر فاطمہ بیگم نے بات کرتے ہوئے کہاں ہے کہ ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح اپریل 2023 میں بڑھ کر 18.11 فیصد ہو گئی جو مارچ 2023 میں 7.8 فیصد تھی۔ سال کے آغاز سے لے کر اب تک کسی بھی اوپر کے رجحان پر بے روزگاری کی شرح مسلسل چوتھے مہینے میں اضافہ ریکارڈ کر رہی ہے۔اس طرح سماجی ماحول کی اس گندگی کے ساتھ ساتھ جو سب سے بڑا مسئلہ ملک کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے وہ ہے نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی بیروزگاری۔ 2014 میں انتخابی مہم کے دوران موجودہ حکومت نے ہر سال دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ وعدہ کتنا پورا ہوا؟ نہ صرف عوام خود محسوس کر رہی ہے بلکہ سرکاری اعداد و شمار بھی چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ جتنی مختصر نوکریاں ملی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ نوکریاں ختم ہو چکی ہیں اور دیگر طریقوں سے بھی روزگار سے محروم کیے جا چکے ہیں۔ جس سے ہندستان دنیا میں سب سے زیادہ بیروزگاروں ملک بن گیا ہے۔ ایک نوجوان طالب علم کا کہنا ہے ایسے کتنے سوالات ہیں جو آج کے نوجوان کی زندگیوں کو بد سے بدتر بنا رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ اب مایوسی اور ذہنی تناؤکی شکلوں میں نکل کے آیا ہے۔ مستقبل کی فکر نوجوان کو کھائی جارہی ہے۔ ایک فارم کو بھرنے کے لئے پانچ سو روپے وہ ماں باپ سے لیتا ہے۔ اب جہاں فارم بھرنا ہے وہاں تک جانے کے لیے بھی کرایہ والدین سے لیتا ہے۔ امتحان کے دنوں بھی کرایہ کا خرچہ والدین کے کندھوں پر ہوتا ہے۔ پھر جب نتائج آتے ہیں تو وہ امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جن کے پاس رشوت اور اثرورسوخ ہوتا ہے۔ ہاں اگر غریب جوان امتحان میں کامیاب بھی ہوتا ہے، مگر نتائج آنے کے بعد امتحان کو ہی رد کیا جاتا ہے کیونکہ امتحان دھاندلیوں کا شکار ہوجا تا ہے۔ تو اس صورتحال میں اب یہ امید لگائے بیٹھنا کہ نوجوان اپنی توانائیاں کارآمد کاموں میں صرف کرے گے،ایک سراب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔(چرخہ فیچرس)