محسن بےحد پریشان تھا۔ کپکپاتے ہوۓ خود سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔۔! میری محبوبہ کو حاکمِ وقت نے بے وجہ قید کر لیا۔ ہاۓ رے میری قسمت! کیا پورے شہر میں ان کو میری محبوبہ ہی ملی تھی؟ مجھے اپنی محبوبہ محنور کو بادشاہ کی قید سے آزاد کرانا ہوگا۔ میں اس کے بغیر ایک پل بھی نہیں رہ سکتا۔ میں اپنی محبت کی ایک ایسی مثال قائم کروں گا جس سے لوگ صدیوں تک یاد رکھیں گے۔ محسن اپنی محبوبہ کی رہائی کے لئے شہر کے حاکم عارف نظامی کی خدمت میں چلا جاتا ہے اور بادشاہ سلامت سے محنور کی رہائی کی بھیک مانگتا ہے۔ عارف نظامی محنور کی آزادی کے لیے ایک شرط رکھتا ہے۔ دراصل عارف نظامی نے خواب میں ایک ایسی نایاب چیز دیکھی تھی جس میں انسان اپنا عکس قید کر سکتا تھا اور لوگ آپس میں اس چیز سے باتیں کرسکتے تھے اور وہ چیز ساتویں جزیرے میں دستیاب تھی۔ عارف نظامی محسن کو وہ نایاب چیز ساتویں جزیرے سے لانے کا حکم دیتا ہے اور اس کے بدلے محنور کی آزادی کا وعدہ کرتا ہے۔
محسن کو محنور سے ملنے کی اجازت مل جاتی ہے اور وہ محنور سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ ساتویں جزیرے سے وہ نایاب چیز لاکر اس کی آزادی کو یقینی بنائے گا۔ یہ محسن اور محنور کی محبت کا امتحان تھا۔ محسن محنور سے الوداع کہہ کر اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے۔
محسن کبھی جنگل کے راستے کبھی پیدل اور کبھی کشتی کے ذریعے سفر کے لیے نکل پڑتا ہے۔ تین مہینے کے طویل سفر کے بعد بالآخر محسن پہلے جزیرے پر قدم رکھتا ہے۔ محسن کے شہر میں لوگوں کے پاس سفر کے لیے کوئی بھی چیز دستیاب نہ تھی جبکہ پہلے جزیرے میں لوگ گھوڑوں پر سفر کر رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر محسن کو بڑا عجیب لگتا ہے۔ وہ جزیرے کے ایک امیر تاجر سے اپنا سارا قصہ بیان کرتا ہے۔ رحم دل تاجر محسن کو تحفے میں ایک گھوڑا دیتا ہے تاکہ محسن کو سفر میں آسانی ہو۔ محسن خوشی سے تاجر کا تحفہ قبول کرتا ہے اور اپنا آگے کا سفر گھوڑے کی مدد سے جاری رکھتا ہے۔
گھوڑے پر سفر کرتے کرتے دو مہینے کے طویل عرصہ کے بعد محسن دوسرے جزیرے میں تاجر کے زریعے سے ہی ایک کشتی پر سورا ہوکر داخل ہوا۔ دوسرے جزیرے میں لوگوں کی بڑی چہل پہل تھی۔ قدم قدم پر لوگوں نے داستان گوئی کی محفلیں سجھائی تھی اور لوگ طویل اور دلچسپ داستانوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ محسن بھی ایک محفل میں بیٹھ گیا اور وہاں ہزارداستان کے چند قصے سن کر کچھ مدت تک دیوی دیوتاؤں اور پریوں کی دنیا میں چلا گیا۔ دوسرے جزیرے سے محسن کو قصہ ہزار داستان کی تصنیف بطور تحفہ مل جاتی ہے اور محسن اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے تیسرے جزیرے میں ایک بحری بادبان پر سوار ہوکر داخل ہوا۔
محسن کو اپنی محبوبہ محنور کی یاد ستا رہی تھی اور وہ جلد از جلد اپنا سفر مکمل کر کے اپنی محبوبہ کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ انجان اور اجنبی راستوں سے چل کر محسن تیسرے جزیرے میں قدم رکھتا ہے۔ تیسرا جزیرہ شعر و ادب کی سرزمین تھی۔ لوگوں کی زبان پر شعر و شاعری کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ محسن شاعری کے فن سے بالکل نابلد تھا اور شاعری اس کے لیے ایک نئی چیز تھی۔ تیسرےجزیرے میں طرح طرح کے شاعر تھے۔ کوئی عشق و حسن کو اپنی شاعری میں بیان کر رہا تھا تو کسی کی شاعری سے تصوف اور علم و عرفان سے مزین تھی۔ محسن نے چند روز تیسرے جزیرے میں قیام کیا اور وہاں ایک باسی کی زبان سے ولی دکنی کا یہ شعر سن کر اس کو اپنی محبت پر فخر ہوا:
یاد کرنا ہر گھڑی اس یار کا
ہے وظیفہ مجھ دل بیمار کا
محسن تیسرے جزیرے سے کلیات ولی حاصل کرکے اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ محنور اپنے محبوب کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کے لیے قید خانے میں ایک ایک لمحہ گزارنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ ہمیشہ خدا سے اپنی رہائی کے ساتھ ساتھ محسن کی کامیابی کی دعا مانگ رہی تھی اور اُدھر محسن چوتھے سرسبز جزیرے پر ایک بحری جہاز کے زریعے سے اپنا قدم رکھتا ہے۔ چوتھا جزیرہ تیسرے جزیرے کے مقابلے بالکل الگ تھا۔ یہاں کے لوگوں میں علم و ادب پڑھنے اور سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ شاعری کے ساتھ ساتھ، داستان اور ناول پڑھنے کا رواج بھی عام تھا۔ سفر طے کرنے کے لئے لوگ اب موٹر گاڑیوں کا استعمال کر رہے تھے۔ محسن نے ایک نئی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ لوگوں کے لبوں پر مومن اور غالب کے اشعار تھے۔ کوئی مولوی نذیر احمد کے ناول تو کوئی سرسید احمد خان کے مضامین اور انشائیہ پڑھنے میں مصروف تھا۔ چوتھا جزیرہ جیسے اردو ادب کا ایک مرکز تھا اور یہاں ہر طرف اردو ادب کا بول بالا تھا۔ چوتھے جزیرے میں محسن نے لوگوں کو اخبار پڑھتے ہوئے بھی دیکھا۔ محسن اپنی پرانی دنیا کو بھولنے لگا اور اس نے اپنی محبوبہ کی یاد میں کچھ حد تک کمی محسوس کی۔ اس جزیرے میں محسن اردو ادب کا بڑی باریکی سے مطالعہ کرنے لگا۔ اس نے بہت سارے شاعروں کے دیوانوں کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ وقت کے ناول نگاروں کے ناول بھی حفظ کرلیے۔ محسن کے لئے یہ ابھی تک کا سب سے حسین اور یادگار سفر تھا۔ چوتھے جزیرے نے محسن کی زندگی بدل کر رکھ دی اور وہ ایک شاندار جہاز میں بیٹھ کر پانچویں جزیرے کی جانب چل پڑا۔
جہاز کی بدولت محسن محض چند دنوں میں پانچویں جزیرے میں پہنچ گیا۔ پانچواں جزیرہ بھی دکھنے میں چوتھے جزیرے کے مترادف تھا۔ یہاں کے لوگ کچھ حد تک اپنی زندگی میں مصروف نظر آ رہے تھے حالانکہ اردو ادب سے ان کا لگاؤ برقرار تھا۔ یہاں کے لوگ ناول اور داستانوں کی جگہ افسانے اور افسانچے پڑھ رہے تھے جبکہ اخبار بینی کا شوق یہاں کے لوگوں میں برقرار تھا۔ موٹر گاڑیوں کے ساتھ ساتھ محسن کو اب ریل گاڑیاں بھی نظر آنے لگی۔ پانچواں جزیرہ بھی اردو ادب کا ایک ذخیرہ تھا۔ پانچویں جزیرے میں محسن نے منٹو ،کرشن چندر اور پریم جیسے عظیم افسانہ نگاروں کے شاہکار افسانوں کا مطالعہ کیا۔ وہ ان افسانوں میں اس قدر کھو گیا کہ وہ محنور کو دھیرے دھیرے بھولنے لگا۔ محسن کے دل میں منٹو کے افسانے اس قدر بس چکے تھے کہ وہ محنور کے بجائے منٹو کو اپنا دل دے بیٹھا ۔ وہ منٹو سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے پانچویں جزیرے میں رہنے کا فیصلہ کیا لیکن منٹو کی قید نے اسے کافی غمگین کیا اور وہ ریل گاڑی میں بیٹھ کر چھٹے جزیرے کی طرف روانہ ہوا۔
اس نے ریل گاڑی میں منٹو کے ساتھ ساتھ اپنی محبوبہ کو کافی یاد کیا اور دو دن بعد محسن چھٹے جزیرے کے پلیٹ فارم پر اتر جاتا ہے۔ یہاں ہر طرف شور و غل اور موٹر گاڑیوں کی آواز آ رہی تھی۔ چھٹے جزیرے کے لوگ کافی ترقی پسند تھے اور سب لوگ اپنی زندگی میں مصروف نظر آ رہے تھے حالانکہ اردو ادب سے لگاؤ کچھ حد تک ابھی بھی برقرار تھا۔ یہاں کے بازاروں میں کتب فروشوں کے ساتھ ساتھ اخبار فروش بھی نظر آ رہے تھے۔ محسن نے اردو ادب کے ہر صنف میں مہارت حاصل کی تھی۔ یہاں کے لوگ مغربی تہذیب اور تعلیم کو اپنا رہے تھے۔ ریل گاڑیوں کے ساتھ ساتھ محسن نے ہوائی جہاز کا بھی نظارہ کیا۔ چھٹے جزیرے میں خط وکتابت کا کوئی نشان باقی نہ تھا اور لوگ ایک دوسرے سے ٹیلی فون پر بات کررہے تھے۔
چھٹے جزیرے میں محسن نے نئی نئی چیزیں سیکھیں اور وہ بھی کچھ حد تک اپنی زندگی میں مصروف ہوا۔ محنور آہستہ آہستہ اس کی یادوں سے اوجھل ہو رہی تھی۔ محنور سے کیا ہوا وعدہ اس کو ایک مذاق لگ رہا تھا اور چھٹے جزیرے میں وہ خوشبو کو اپنا دل دے بیٹھتا ہے۔ محسن خوشبو کی صورت پر فدا ہو جاتا ہے جبکہ خوشبو محض اپنے شوق کے لیے محسن کا ہاتھ تھامتی ہےاور کچھ ہی مدت میں خوشبو محسن سے الگ ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔ خوشبو کی بے وفائی محسن کو ساتویں جزیرے میں جانے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ محسن کو پھر سے محنور کی یاد ستانے لگی۔
محسن ہوائی جہاز میں بیٹھ کر ساتویں جزیرے کے ہوائی اڈے پر اتر جاتا ہے۔ ساتویں جزیرے کے لوگ باقی جزیروں سے بالکل مختلف تھے۔ ان کو اردو ادب سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ یہاں کے لوگ اردو ادب کو بھول چکے تھے۔ یہاں کے بازاروں سے اخبار فروش اور کتب فروش غائب ہو چکے تھے۔ ٹیلی فون کی جگہ موبائل فون نے لی تھی۔ لوگ اپنا بیشتر وقت موبائل فون کے ساتھ صرف کر رہے تھےاور وہ یہی چیز تھی جو بادشاہ عارف نظامی نے خواب میں دیکھی تھی اور اسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے محسن کو ساتویں جزیرے میں بھیجا گیا تھا۔
یہاں کے لوگ بڑے عجیب تھے۔ وہ ہر کوئی چیز کیمرے میں قید کرلیتے تھے۔ محسن نے یہاں کے جواں سال شخص عرفان سے دوستی کر لی۔ عرفان نشے کا عادی تھا اور اس کی صحبت میں رہ کر محسن کو بھی نشے کی لت لگ گئی۔ نشے کی لت میں محسن محنور کو بھول چکا تھا۔ گویا محنور اب اس کے لیے مر چکی تھی۔ محسن نے ایک ایسی دنیا میں قدم رکھا تھا جو لطافت سے لبریز تھی۔ فریب، بے وفائی ،نشہ اور بے ایمانی یہاں کے لوگوں کی خصوصیات تھیں اور یہ سب چیزیں محسن کے اندر سما گئی تھی۔ محسن اب ایک بے وفا عاشق تھا۔ اس کے دل میں اب محنور کے بدلے موبائل فون بس چکا تھا۔ جواں سال لڑکیوں کو اپنے چنگل میں پھنسا نا اس کی عادت بن چکی تھی۔ نشے کے ساتھ ساتھ محسن چوری بھی کرنے لگا۔ اردو ادب سے اس کا لگاؤ ختم ہو چکا تھا اور اس نے تحفے میں ملی ساری تصنیفات محض چند شراب کی بوتلوں کے عوض بیچ ڈالی۔ محسن ساتویں جزیرے میں ایک درندے کی طرح اپنی زندگی بسر کررہا تھا اور اُدھر محنور بڑی بے صبری سے اس کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔
سات سال گزر چکے تھے اور محنور اپنے عاشق کی واپسی کیلئے اللہ سے دعا گو تھی۔ محسن کو محنور کا عشق بس ایک افسانہ لگ رہا تھا اور اس نے ساتویں جزیرے میں رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ اس جزیرے میں اپنی دنیاوی زندگی کو ایک دلفریب مستی میں گزار رہا تھا۔ اور اس کے لیے زندگی کا اصل مزہ شراب اور نشے میں تھا۔ جھوٹ اور فریب نے محسن کو اندھا بنا دیا تھا اور وہ ساتویں جزیرے کے التباس اور سراب میں اس قدر کھو چکا تھا کہ اپنی محبوبہ سے کئے ہوئے وعدے کا اسے کوئی خیال نہ رہا اور نہ ہی وہ محنور کے پاس جانے کے لیے تیار تھا۔ نشہ اور موبائل فون اس کی رگ رگ میں بس چکے تھے۔
محسن اکثر وقت ساتویں جزیرے, جو ایک ماڈرن شہر بن چکا تھا اور ہزاروں میلوں پر پھیلا تھا, میں گہما گہمی اور چکا چوند میں گھرا رہتا تھا۔ وہ اپنے ازلی مقصد سے بھٹک چکا تھا۔ ایک دن سود پر لی ہوئی گاڑی میں سوار نشے کی حالت میں دھت شام کے وقت شہر کے ایک مضافاتی علاقے کا رخ کیا جو قدرے خاموش علاقہ تھا۔ اچانک کسی مسجد سے اذان کی آواز آئی۔ محسن کو لگا جیسے اس نے ہزار سال کے بعد اذان سنی ہو۔
اس کا سارا وجود تھرتھرانے لگا اور اپنے وعدے کو یاد کرنے لگا۔ وعدے کا بوجھ اور اپنی ناکامی اعصاب پر حاوی ہوئی اور ہوش و حواس باختہ ہوئے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے اعصاب پر قابو کر لیتا, سامنے سے تیز رفتاری کے ساتھ آتے ہوئے ایک تیل کے ٹینکر نے محسن کی ڈگمگاتی گاڑی کو ٹکر ماری۔ اور گاڈی کئی فٹ ہوا میں اچھل کر دور سڑک کے کنارے قلا بازیاں کھاتی ہوئی گری۔ محسن گاڑی ہی میں مر چکا تھا۔ اور اس کی کھلی آنکھوں میں نہ کوئی خواب تھا نہ کسی وعدے کا سراغ, بلکہ وحشت اور ناکامی کا ایک اتھاہ سمندر۔
فاضل شفیع فاضل
اکنگام انت ناگ
رابطہ: 9971444589