خدایا یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ ١٢ رجب المرجب ٧١٤ مطابق ١٣١٤ ء کو ایران کے ایک مشہور شہر ہمدان میں پیدا ہوئے ۔ آپ ؒ کے والدہ کا نام مبارک فاطمہ اور والد ماجد کا نام سید شہاب الدین تھا ۔ آپؒ کا نسب پاک ١٦ واسطوں سے حضرت امام حسینؓ کے زریعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مل جاتا ہے ۔ حضرت امیر کبیرؒ نے بہت ہی چھوٹی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا ۔ اس کے بعد آپؒ نے تصوف اور معرفت کی تعلیم اپنے ماموں حضرت سید علاؤالدین سے حاصل کی ۔ آپؒ کے پہلے مرشد شیخ ابو البرکاتؒ تھے اور بعد میں شیخ شرف الدین مزدقاتیؒ آپ کے مرشد ہوئے ۔ آپؒ نے ٢١ سال تک دنیا کا سفر کیا اور اس دوران اپنے زمانے کے مقتدر علماء اور صوفیائے کرام سے ملاقاتیں کیں ۔ حضرت امیر کبیرؒ وادی کشمیر میں سلطان شہاب الدین کے دور میں ١٣٧٢ ء میں تشریف فرما ہوئے ۔ اس دفعہ آپ ؒ کے ہمراہ سات سو سادات کا ایک عظیم کاروان تھا
۔ چار مہینے کے قیام کے بعد آپؒ نے واپس تشریف لیا۔ ٧٧١ ھ میں اداۓ حج کے بعد دوبارہ کشمیر وارد ہوئے ۔ اس وقت یہاں سلطان قطب الدین کی حکومت تھی ۔ اس دفعہ وادی کشمیر میں آپ ؒ کا قیام تقریباً ڈھائی برس تک رہا ۔ ٧٧٥ ھ میں براہ لداخ آپ ترکستان روانہ ہوئے ۔ تیسری بار آپ ؒ نے وادی گلپوش کا سفر ١٣٨٣ ء میں کیا ۔ اس دفعہ آپ کشمیر میں بہت عرصہ تک رہنا چاہتے تھے مگر مجبوراً سازی طبیعت کے باعث بطرف پگھلی روانہ ہوئے ۔ مقام گنار میں تھوڑے عرصہ مقیم رہنے کے بعد ٥ زی الحجہ ١٣٨٤ ء کو وصال پایا ۔ اس وقت آپؒ کی عمر شریف ٧٢ سال تھی ۔ یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیر میں تبلیغ اسلام کے بارے میں حضرت امیر کبیر ؒ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ وادی کشمیر کی موجودہ خانقاہ معلیٰ جو شہر سرینگر میں دریائے جہلم کے کنارے پر واقع ہے ١٣٩٥ ء میں تعمیر ہوئی ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت امیر کبیر ؒ نے عبادت خدا کی خاطر ایک چلہ خلوت و تنہائی میں گزارہ تھا ۔ آپ ؒ ختلان میں مدفون ہیں ۔ حضرت شاہ ہمدان ؒ نہ صرف ایک ولی اللہ اور خدا دوست تھے بلکہ ایک بہت بڑے عالم و مصنف بھی تھے ۔ حضرت شاہ ہمدانؒ کی دینی خدمات اور ان کی ہمہ جہت شخصیت کا احاطہ کرنے کے لئے محض چند اوراق پر تحاریر کافی نہیں ہیں بلکہ ان کے ایک ایک کارنامے پر الگ الگ طور ضخیم کتابیں تحریر کی جا سکتی ہیں ۔ حضرت امیر کبیر ؒ سینکڑوں کتابوں کے مصنف بھی تھے جن میں ذخیرتہ الملوک اور اوراد فتحیہ کافی مشہور ہیں ۔ شاعر مشرق علامہ اقبال رح نے بھی اس برگزیدہ ہستی کے تیٔں اور ان کے کارناموں پر تحسین بھرے اشعار کہے ہیں ۔۔۔۔
سید السادات سالار عجم
دست او معمار تقدیر امم
حضرت شاہ ہمدان ؒ کی عالی مرتبت شخصیت کا ، ان کے ایک ولی اللہ ، درویش، زاہد ، متقی، عابد ، عارف ،صوفی ، نثر نگار ، شاعر اور ادیب کی حیثیت سے احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔ کشمیر سے جب حضرت امیر کبیر ؒ نے حج کا ارادہ کیا اور واپس چلے گئے تھے تو جب فیروز پور پہنچے جہاں سلطان کشمیر کو بادشاہ ہند کے ساتھ مقابلہ ہونے والا تھا تو آنجناب نےسلطان شہاب الدین کے ساتھ ملاقات کی ، سید تاج الدین رح اور سید حسن بہادر ؒ کے ساتھ بھی ملے۔ ان کے ساتھ گفت شنید کی تو فیروز شاہ کے پاس تشریف لے گئے ۔ اس کو بھی مفید باتیں بتا کر نصیحت کی اور وہ بھی معتقد بن گیا ۔ اس طرح سے دونوں بادشاہوں کو نصایح سے مطمئن کیا اور وہ جنگ نہ کرنے پر آمادہ ہو گ ۔ چنانچہ بعد میں فیروز شاہ کی دو بیٹیاں شہزادہ قطب الدین اور سید حسن بہادر ؒ کی زوجیت میں دی گئیں ۔ اس طرح حضرت امیرؒ کی ثالثی ، تدبر اور فہم و فراست سے دو ملک خون ریزی سے بچ گئے بلکہ دونوں فریقین میں رشتہ اخوت اور قرابت پیدا ہو گئی تھی ۔ حضرت شاہ ہمدانؒ کے ساتھ آۓ کاروان نے اسلام کی دعوت اور سچی تعلیم تمام اطراف تک پہنچادی۔ اسی لئے شاہ ہمدان ؒ کو کشمیر میں بانی اسلام مانا جاتا ہے۔
یعنی آن بانی مسلمانی
میر سید علی ہمدانی
حضرت شاہ ہمدان ؒ سلطان قطب الدین پر مہربان ہو گئے اور اسے اپنا کلاہ مبارکہ عطا فرمائی ۔ سلطان نے اس متبرک کلاہ کو اپنی ساری سلطنت سے ذیادہ قیمتی جانا اور اس کی تعظیم کے تمام آداب بجا لاۓ ۔ پھر کلاہ شریف کو عزت کے ساتھ اپنے تاج میں پیوست کیا ۔
حضرت شاہ ہمدانؒ کی ولادت کی پیش گوئی حضور صلی االلہ علیہ وسلم نے ان مبارک الفاظ میں فرمائی ۔ ” یعنی میری ہجرت کے بعد سات سو تیرہ سال گزر کر وہ ستارہ عراق کے شہر ہمدان میں طلوع کرے گا ۔ حضرت شاہ ہمدان ؒ کے بارے میں حضرت امام ابو حامد محمد الغزالیؒ نے یوں فرمایا ” کہ حضرت میر سید علی ہمدانی ؒ کا جھنڈا یعنی علم تمام بڑے بڑے اولیاء اللہ کے جھنڈوں سے اونچا ہو گا۔ حضرت شیخ ابو سید حبشی ؒ اپنے وقت کے بہت بڑے متقی اور ولی کامل تھے ۔ آپ نے بڑی لمبی عمر پائی اور اپنی زندگی میں بڑے بڑے بزرگان دین کی بھی زیارت کی ۔ روایات میں ہے کہ آپ کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خرقہ مبارک تھا جس کو آپ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے تھے ۔ بوڑھاپے میں وہ دن رات اسی فکر میں رہتے تھے کہ اپنے انتقال سے پہلے میں یہ خرقہ مبارک کس کے حوالے کردوں ؟ آخر کار آپؒ نے اس سلسلہ میں اپنے خالق اللہ سے رہنمائی کی دعا کی جو بعد میں قبول ہوئی اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو خواب میں جلوہ گر ہوۓ۔ تو فرمایا۔ : ہمارا فرزند ہجرت کے ٧١٣ سال گزر جانے کے بعد تولد ہوگا ۔ یہ خرقہ انہی کے حوالے کر دینا ۔ ابو سید حبشی ؒ نے عرض کیا : آپ کا وہ فرزند کہاں تولد ہوگا ؟ فرمایا: عراق کے شہر ہمدان میں اور اس کا نام سید علی ہمدانی ہو گا۔ چنانچہ ١٢ ماہ رجب المرجب ٧١٤ھ کو حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی ؒ دنیا میں تشریف لاۓ ۔ چند سال بعد ہی شیخ ابو سید حبشیؒ نے وہ خرقہ مبارک آپ کے حوالے کر دیا ۔ شیخ نظام الدین نوری الخراسانی رح نے حضرت شاہ ہمدان ؒ کے شب تولد دیکھا کہ حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام نہایت ہی خوبصورت ملبوسات ہاتھوں میں لۓ سید شہاب الدین کے گھر جارہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ‘ آج رات سید شہاب الدین کے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرزند بلند مرتبت تولد ہوگا ہم یہ کپڑے لیکر وہیں جا رہے ہیں’ ۔ حضرت علاؤ الدین سمنانی ؒ حضرت امیر کبیر ؒ کے تولد ہوتے ہی فرماتے ہیں کہ ہمارے گھر آج جو فرزند تولد ہؤا ہے وہ حسبی اور نسبی فرزند نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور جو نبی کریم کے نقش قدم پر چلے گا اور اسلام کا نور مشرق و مغرب میں پھیلاۓ گا ۔ وادی کشمیر کے ایک بلند پایہ ولی کامل اور بلند مرتبت بزرگ حضرت ایشان شیخ یعقوب صرفیؒ حضرت شاہ ہمدان ؒ کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں ۔۔۔
در گر دنم باجا و دانی
زنجیر در علی ثانی رح
اللہ ہمیں اس عظیم اور بلند پایہ ولی کامل کے دکھائے ہوئے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
ریٔس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر