ریاض فردوسی۔9968012976
یہ سوال بحث کا موضوع اس لیے ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سورہ صفات،آیت نمبر 100 سے 108 تک جس بیٹے کی قربانی پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا اس بیٹے کا نام اللہ تعالی نے قران مجید میں نہیں بتایا۔ دوسری طرف بایبل کی کتاب پیدائش میں ہے کہ خداوند نے ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم دیا ۔ اس لیے اس معاملہ میں مفسرین اور مورخین کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عباس، حضرت ابن عباس، کعب الاحبار، سعید بن جبیر، قتادہ، مسروق، عکرمہ، عطائ، مقاتل، زہری اور سدی سے منقول ہے کہ وہ صاحبزادے حضرت اسحاق (علیہ السلام) تھے، اس کے برخلاف حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابو الطفیل، سعید بن المسیب، سعید بن جبیر، حسن بصری، مجاہد، حضرت عمر بن عبد العزیز، اشعبی، محمد بن کعب قرظی، اور دوسرے بہت سے تابعین سے منقول ہے کہ وہ صاحبزادے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے۔ بعد کے مفسرین میں سے حافظ ابن جریر طبری نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے اور حافظ ابن کثیر وغیرہ نے دوسرے قول کو اختیار کر کے پہلے قول کی سختی کے ساتھ تردید فرمائی ہے۔ اب ہم اس بحث کو دلائل کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
ہجرت سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کا اصل وطن قدیم عراق جسے Mesopotamia بھی کہتے ہیں کا ایک شہر ار (Ur) تھا۔ یہی ابراہیم علیہ السلام کا مقام پیدائش تھا۔ یہ شہر بابل یعنی Babylon سے جنوب کی جانب دریا فراط کے ساحل پر واقع تھا۔ سرزمین عراق کے اسی خطے میں ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو دین کی دعوت پیش کی۔ اس علاقے کے لوگوں کو علم فلکیات سے کافی دلچسپی تھی اور یہاں کے لوگ سورج چاند ستاروں کی پرستش کرتے تھے، اسی لیے ابراہیم علیہ السلام نے دوران تبلیغ لوگوں کو یہ یقین دلایا کہ جو چیز یعنی سورج،چاند ستارے غروب ہو جائے اور اپنے عروج پر قائم نہیں رہنے پایے وہ کس طرح سے بھی انسانوں کا معبود نہیں ہو سکتا ۔ ابراہیم علیہ السلام نے نجوم پرستی کے خلاف اپنی قوم کے سامنے جو استدلال بیان فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جو چیز تغیر پذیر ہو اور اس کے حالات اول بدل ہوتے رہتے ہوں، اور وہ اپنی حرکات میں کسی دوسری طاقت کے تابع ہو وہ ہرگز اس لائق نہیں کہ اس کو اپنا رب قرار دیں ۔ابراہیم علیہ السلام کی قوم دو ہڑے شرک میں مبتلا تھے۔ وہ بتوں کی بھی پرستش کرتے تھے اور ستاروں کی بھی۔ یہ وہی مقام ہے جہاں ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کا واقعہ رونما ہوا۔ مسلسل دین کی دعوت و تبلیغ کے بعد بھی جب آپ کی قوم نے آپ کی دین کو قبول نہیں کیا اور شرک اور بت پرستی کو ہی اپنا دین سمجھتے رہے تو اللہ تعالی کے حکم سے ابراہیم علیہ السلام عراق سے ہجرت کرکے ملک کنعان یعنی شام منتقل ہو گیے۔
ہجرت کے وقت آپ کے ہمراہ اپ کے بھتیجے لوط علیہ السلام اور آپ کی بیوی صاحبہ سارہ اور کنیز ہاجرہ تھے۔ بایبل کی کتاب پیدائش کے مطابق ابراہیم علیہ السلام جب عراق سے روانہ ہویے اس وقت ان کی عمر پچہتر سال تھی اور دس سال کنعان میں گزارنے کے بعد آپ نے اللہ تعالی سے ایک بیٹے کی پیدائش کے لیے درخواست کی اور پھر چھیاسی سال کی عمر میں آپ کی کنیز ہاجرہ سے اسماعیل علیہ السلام پیدا ہونے اور جب ابراہیم علیہ السلام سو سال کے ہو گیے تو آپ کی اہلیہ سارہ سے اسحاق علیہ السلام پیدا ہونے اور اس وقت اسماعیل علیہ السلام کی عمر چودہ سال تھی۔ سورۃ ابراہیم آیت نمبر 14 میں ابراہیم علیہ السلام اپنی ضعیفی میں اپنے دو بیٹوں کی پیدائش کا ذکر فرماتے ہوئے اللہ تعالی کا شکریہ ادا کرتے ہیں( اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ وَهَبَ لِىۡ عَلَى الۡـكِبَرِ اِسۡمٰعِيۡلَ وَاِسۡحٰقَؕ اِنَّ رَبِّىۡ لَسَمِيۡعُ الدُّعَآءِ:شکر ہے اللہ کا جس نے بخشا مجھ کو اتنی بڑی عمر میں اسماعیل اور اسحق، بیشک میرا رب سنتا ہے دعا کو۔ اس آیت میں ترتیب سے پہلے اسماعیل علیہ السلام اور پھر اسحاق علیہ السلام کا نام لیا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ پہلے اسماعیل علیہ السلام پیدا ہویے اور ان کے بعد اسحاق علیہ السلام۔
قران مجید میں مذکور ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے ایک نیک بیٹا کی پیدائش کیے لیے دعا کی تو اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول فرمایی اور ایک فرزند کی پیدائش کی خوشخبری سنائی ۔ اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کی پیدائش کی دعا اس وقت کی جب آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی اور آپ کی دعا کی قبولیت کے باعث جو پہلا لڑکا پیدا ہوا وہ اسماعیل علیہ السلام تھے کیونکہ تاریخ اور خود کتاب پیدائش سے بھی ثابت ہے کہ اسماعیل علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کے پہلےلڑکے تھے۔ پھر اسی بیٹے کی بابت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ بیٹے کو جب باپ سے اللہ تعالی کا یہ حکم معلوم ہوا تو باپ اور بیٹا دونوں ہی اس امر الہی پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو گیے ۔ ابراہیم علیہ السلام نے جب اسماعیل علیہ السلام کو سر کے بل لیٹا دیے اور ذبح کرنے ہی جا رہے تھے کی اللہ کی آواز آئی کہ ابراہیم علیہ السلام نے خواب کو سچا کر دکھایا ۔ پس بیٹا کی جگہ مینڈھا کی قربانی دی گئی۔ قربانی کے واقعہ کے بعد اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق علیہ السلام کی نبوت کی خوشخبری سنائی۔ چونکہ قرآن مجید میں اسحاق علیہ السلام کی نبوت کی خوشخبری قربانی کے واقعہ کے بعد کی ہے اور تاریخ اور بایبل سے بھی ثابت ہے کہ اسحاق علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام کے چودہ سال بعد پیدا ہونے اس لیے قران مجید میں جس بیٹے کی قربانی کا ذکر ہے وہ اسماعیل علیہ السلام کے سوا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔
اہل عرب میں برابر حج کے دوران قربانی کا طریقہ رائج رہا ہے اور اہل عرب اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اس لیے غالب گمان ہے کہ قربانی کا واقعہ ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام سے ہی متعلق ہو۔ دوسری بات یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے کے فدیہ میں جو مینڈھا جنت سے بھیجا گیا اس کے سینگ سالہا سال تک کعبہ شریف کے اندر لٹکے رہے ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے اس کی تائید میں کئی روایتیں نقل کی ہیں، اور حضرت عامر شعبی کا یہ قول بھی ذکر کیا ہے کہ” میں نے اس مینڈھے کے سینگ کعبہ میں خود دیکھے ہیں۔ “ (ابن کثیر، ص ٨١ ج ٤) اور حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ ” اس مینڈھے کے سینگ مسلسل کعبہ میں لٹکتے رہے، یہاں تک کہ جب حجاج بن یوسف کے زمانہ میں کعبة اللہ میں آتش زدگی ہوئی تو یہ سینگ بھی جل گئے “ (ایضاً ، ص ٧١ ج ٢) اس سے صاف ظاہر ہے کہ قربانی کا واقعہ مکہ مکرمہ میں ہی ہوا اور مکہ مکرمہ ہی حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مسکن رہا ہے اور کعبہ شریف کے از سر نو تعمیر میں ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اسماعیل علیہ السلام ہی تھے، نہ کہ حضرت اسحاق علیہ السلام، اس لئے اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ ذبح کا حکم حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی سے متعلق تھا، نہ کہ حضرت اسحاق علیہ السلام سے۔
اللہ تعالی کا ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی کا حکم دینے کے پیچھے مقصد عین بیٹے کی قربانی دینا نہیں تھا بلکہ یہ حکم ابراہیم علیہ السلام اور انکے صاحب زادے اسماعیل علیہ السلام دونوں کی آزمائش کے لیے تھی۔ اللہ تعالی کی آزمائش اس کے بندوں کے لئے اور خاص کر اس کے پیغمبروں کے لیے آسان نہیں ہوتی۔ یہ آزمائش ابراہیم علیہ السلام کے لیے سخت اسی وقت ہو سکتی تھی جب یہ حکم اکلوتے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے متعلق ہو کیونکہ جس بیٹے کو بڑھاپہ میں بڑے چاہتوں اور ارمانوں سے مانگا تھا اور جو بڑھاپے میں باپ کا سہارا بنتا اسی بیٹے کی قربانی باپ پر بہت شاق گزرتی۔ اگر بیٹے کی قربانی کا حکم اسحاق علیہ السلام سے متعلق ہوتی تو یہ آزمائش نسبتاً آسان ہوتی کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کو اس بات پر صبر ہو جاتا کہ ان کا ایک بیٹا یعنی اسماعیل علیہ السلام اس کے ساتھ ہے۔
عبرانی زبان میں اسماعیل کا معنی خدا سنتا ہے اور اسحاق کا معنی وہ ہنستا ہے ہوتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش اللہ تعالیٰ کا ابراہیم علیہ السلام کی فریاد سننے کے بعد ہی ہویی تھی اس لیے قران مجید میں ابراہیم علیہ السلام کے جس بے نام بیٹے کی قربانی کا ذکر ہے وہ اسماعیل علیہ السلام ہی ہیں۔ دوسری جانب جب فرشتوں نے ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری سنائی تو انکی بیوی سارہ اس خبر کو سن کر تعجب میں پڑ گئی اور ہنس پری اور کہا کہ جب وہ اور انکے خاوند بچے پیدا کرنے کی عمر کو تجاوز کر چکے ہیں تو کیا انکو اولاد ہوگی۔ سارہ کی مسکرانے کی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے کا نام اسحاق علیہ السلام پڑا۔ اس لیے اب کوئی تردد ہی نہیں ہے کہ اسماعیل علیہ السلام ہی ذبیح ہیں۔
کتاب پیدائش میں ذکر ہے کہ خدا وند نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنے اکلوتے بیٹے اسحاق علیہ السلام کی قربانی کرنے کا حکم دیا۔ لیکن یہ بات کسی طرح سے ثابت نہیں ہے کہ اسحاق علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کے اکلوتے بیٹے تھے بلکہ وہ دوسرے بیٹے تھے جو اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کے چودہ سال بعد پیدا ہویے تھے۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ ابراہیم علیہ السلام کو انکے اکلوتے بیٹے کی قربانی کا حکم دیا گیا تھا تو وہ اسماعیل علیہ السلام ہی ہو سکتے ہیں، اسحاق علیہ السلام نہیں۔ ایسا لگتا ہے کتاب پیدائش میں” اکلوتا بیٹا ” کا الفاظ اسماعیل علیہ سے منتقل کرکے اسحاق علیہ السلام کی طرف کر دیا گیا ہے۔
کوئی یہ دلیل پیش کر سکتا ہے کہ سورہ صفات میں جس بچے کی قربانی کا ذکر ہے وہ اسماعیل علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ اسحاق علیہ السلام ہیں اور چونکہ اسحاق علیہ السلام اللہ تعالی کی آزمائش اور امتحان میں کامیاب ہو گیے تو انعام کے طور پر اللہ تعالی نے اسحاق علیہ السلام کو نبوت کی بشارت دی، یہاں انکی پیدائش کی بشارت نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب فرشتے ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات کیے تو لوط علیہ السلام کی قوم کی ہلاکت سے پہلے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی سارہ کو دو باتوں کی بشارت دیے کہ ان دونوں سے اسحاق علیہ السلام پیدا ہوںگے اور بعد میں اسحاق علیہ سے یعقوب علیہ السلام پیدا ہوںگے ( اور اس کی عورت کھڑی تھی تب وہ ہنس پڑی پھر ہم نے خوشخبری دی اس کو اسحاق کے پیدا ہونے کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی ؛سورہ ہود، آیت نمبر 71). اب اگر ذبیح اللہ اسحاق علیہ السلام ہیں تو اللہ تعالی کا بیٹے کی قربانی سے جو ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش مقصود تھی وہ بے معنی ہو کر رہ جاتی کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کو اس بات کا علم انہیں اس بات کا یقین دلاتا کے قربانی اپنے تکمیل کی انجام تک نہیں پہونچے گی کیونکہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ اسحاق علیہ السلام سے یعقوب علیہ السلام کی پیدائش ہونا باقی ہے۔
سورۃ مريم کی آیت نمبر 19 ( ترجمہ:اور کتاب میں اسمٰعیل کا بھی ذکر کرو وہ وعدے کے سچے اور ہمارے بھیجے ہوئے نبی تھے) بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذبیح اللہ ہونے کی تائید کرتی ہے ۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اس وعدے کا ذکر ہے جو آپ نے بوقت ذبح کیا تھا کہ اباجی آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔ چناچہ فی الواقع آپ نے وعدے کی وفا کی اور صبرو برداشت سے کام لیا۔ سورہ الحجر آیت نمبر 53 میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت بیان کرتے وقت ان کی یہ صفت بیان کی گئی ہے( اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمٍ عَلِيۡمٍ: ہم تجھ کو خوش خبری سناتے ہیں ایک ہوشیار لڑکے کی) جبکہ سورۃ الصافات آیت نمبر 101 میں ابراہیم علیہ السلام کی درخواست پر اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو ایک بیٹے کی بشارت دی اور ان کی صفت یہ بیان کی گئی( فَبَشَّرۡنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِيۡمٍ؛ پھر خوشخبری دی ہم نے اس کو ایک لڑکے کی جو ہوگا تحمل والا) ۔ اگر اسحاق علیہ السلام ذبیح ہوتے تو انکے لئے صفت حلیم استعمال ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا اس لیے جو بیٹا حلیم سے متصف ہوا وہ اسماعیل علیہ السلام ہی تھے جو ذبح کے وقت غیر معمولی صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔