شہر سرینگر کے مختلف علاقوں میں لینڈ مافیا اور خودغرض عناصر شدومد کیساتھ اپنی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔ آئے روز غیر آبادی والے علاقوں میں لینڈ مافیا سے وابستہ افراد اپنا قبضہ جماکر شہر سرینگر کے ماحولیات کا توازن بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں۔متعدد علاقوں میں ان خود غرض عناصر نے جہاں سرکاری کاہچرائی پر ناجائز قبضہ کرتے ہوئے یہاں تعمیرات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کیا ہے وہیں ان لوگوں نے سینکڑوں قبرستانوں کے ارد گرد رقبہ اراضی کو ہتھیا نے کا عمل شروع کردیا ہے۔ شہر کے تاریخی مقبرہ ملہ کھاہ جو وسیع رقبہ اراضی پر مشتمل ہے، میں بھی ان خودغرض عناصر نے بڑی ڈھٹائی کیساتھ قبضہ جمایا ہے۔ یہاں مقبرہ کے چاروں حدود پر لینڈ مافیا حضرات نے مختلف حیلوں اور بہانوں کے ذریعے ڈھیرہ جمایا ہے۔ بعض مقامات پر یا تو ٹین شیڈ تعمیر کئے گئے ہیں یا پھر مخصوص رقبہ اراضی کے ارد گرد تار بندی کا عمل شروع کیا گیا ہے۔ اس طرح کی کارروائیوں سے مقامی آبادی کے اندر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جو چاہتی ہے کہ ایسے سماج دشمن عناصر کیخلاف بڑے پیمانے پر کارروائی ہو تاکہ مقبرہ جہاں مسلمانوں کی تدفین عمل میں لائی جاتی ہے، پر اس طرح کی کارروائیوں پر روک لگائی جاسکے۔ اس وسیع و عریض قبرستان میں ناجائز تعمیرات کیساتھ ساتھ قمار بازوں اور بدمعاشوں کا آنا جانا بھی معمول بن گیا ہے جس کے نتیجے میں مقامی آبادی سے تعلق رکھنے والی مائوں، بہنوں اور بیٹیوںکی نقل و حرکت ایک کٹھن عمل ثابت ہوچکا ہے۔ سہ پہر کے بعد اوربالخصوص چھٹیوں کے دوران یہاں کے اندرونی راستوں سے صنف نازک کا گزرنا بھی محال ہوچکا ہے۔ مقامی آبادی نے اگر چہ بار ہا انتظامیہ سے مداخلت کی اپیل کی تاہم اُن کی جائز آوازوں پر کان نہیں دھرا گیا اور اگر کبھی کبھار کوئی کارروائی عمل میں لائی بھی گئی تو وہ وقتی ہی ثابت ہوئی۔ ملہ کھاہ قبرستان کے ارد گرد درجنوں علاقے آباد ہیں جبکہ یہ راستہ شہر کے سینکڑوں علاقوں کیلئے ایک رابطے کا بھی ذریعہ ہے لہٰذا یہاں کی سلامتی، حفاظت اور دیکھ بال کیلئے انتظامیہ کو اوّلین فرصت میں اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے تاکہ یہاں پنپ رہے غیر قانونی دھندوں کو ختم کرنے کیساتھ ساتھ مقامی آبادی کے خدشات کو بھی رفع کیا جاسکے۔مذکورہ علاقے اور مضافات میں گزشتہ سال کے ابتدا میں بھی اس قسم کی شکایات سامنے آئی تاہم انتظامیہ کی غیر مؤثر کارروائیوںکے نتیجے میں سماج دشمن عناصر کا حوصلہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتا گیا اور انہوں نے نہ صرف اپنی کارروائیوں کو مخصوص علاقے تک محدود رکھا بلکہ اس میں گزشتہ مہینوں کے دوران وسعت لائی گئی جس کے نتیجے میں مقامی آبادی کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔مخدوم صاحب علاقے کی آبادی بھی کافی عرصے سے نالاں ہے جن کا مطالبہ ہے کہ علاقے میں قائم قبرستانوں میں اوباش نوجوانوں نے ڈھیرہ جمایا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ کئی مواقع پر ان اوباش نوجوانوں کو شراب پیتے ہوئے دیکھا گیا جس کے نتیجے میں علاقے کے پرامن ماحول پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ اوباش نوجوان نہ صرف خود شراب اور دیگر نشہ آور ادویات کا استعمال کرتے ہیں بلکہ مقامی نوجوانوں کو بھی اپنے جال میں پھانسنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ یہاں کی محلہ کمیٹیوں نے اس حوالے سے کئی بار انتظامیہ اور پولیس سے تعاون طلب کرتے ہوئے ایسے عناصر کیخلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا تاہم صورتحال جوں کی توں برقرار ہے۔ قبرستانوں اور گردو نواح میں ان اوباش نوجوانوں کی کارروائیوں سے لوگ سخت فکر و تشویش میں مبتلا ہوچکے ہیں لہٰذا انتظامیہ کو اس سلسلے میں خصوصی اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک طرف قبرستان کی رقبہ اراضی پر ناجائز قبضے کو ہٹائے جانے کیساتھ ساتھ لینڈ مافیا کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور دوسری طرف ان اوباش نوجوانوں پر لگام کسی جائے جن سے سماج کے پرامن ماحول کو خطرہ لاحق ہے۔’’دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق انتظامیہ اور پولیس کو مشترکہ طور پر یہاں اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ عام لوگوں کے جان، مال اور عزت کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔