وادی کے متعدد علاقوں میں گزشتہ کئی مہینوں سے منشیات سے متعلق کارروائیوں میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جس کو سنجیدہ فکر رکھنے والے لوگوں کیلئے کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔ گزشتہ آٹھ نو مہینوں کے دوران وادی کے شمالی و جنوبی حصوں میں جس طرح پولیس نے بھر وقت کارروائیاں عمل میں لاکر منشیات فروشوں کو رنگے ہاتھوں دھر لیا اور موقعے پر ہی نشیلی ادویات کی بھاری کھیپ بھی ضبط کی، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پیر وأر کہلانے والی اس وادی کشمیر میں یہ سماجی ناسور کس طرح سے پھل پھول رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس کی کارروائیاں قابل تحسین ہیں جس پر محکمہ کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہی ہے۔ لیکن یہ بات سوچنے کے لائق ہے کہ محض چند مہینوں کے دوران یہ لت ہمارے اس سماج میں کس طرح سے گہرائی کیساتھ سرایت کر گئی ہے۔سماج کے گردوپیش حالات کی وجہ سے قوم کی نئی نسل اس لت کے ہتھے چڑھ رہی ہیں جو کہ قابل تشویش امر ہے۔ سماج کے بڑے بزرگوں اور سیول سوسائٹی سے وابستہ زعمائوں کو اس معاملے میں خاموشی اختیار کرنے کے بجائے سامنے آکر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور عوام بالخصوص نوجوانوں کو اس مہلک لت کے تباہ کن نتائج سے واقف کرنا ہوگا۔ اس میں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ گزشتہ کئی برسوں کے دوران ہمارے سماج کے حالات نے ایک نئی کروٹ لینی شروع کردی ہے۔ تفاخر اور آپسی دوڑ نے سماج کے تانے بھانے کو پوری طرح سے بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ بعض ایسے بھی حالات واقع ہورہے ہیں جس سے نوجوان اپنا دامن بچانے میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں، بلکہ چار و ناچار انہیں بھی اس کی زد میں آنا ہی پڑتا ہے۔ طبی ماہرین کے بقول گزشتہ ایک دہائی کے دوران وادی کشمیر میں نوجوانوں کے اندر نشہ کی لت بری طرح سے سرایت کرچکی ہیں جس کے گواہ آج ہمارے وہ اداے یا کلنک ہیں جہاں ایسے مریضوں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ سماجی ناانصافی ، بے روزگاری سمیت ایسے کئی متعدد مسائل ہیں جن کی وجہ سے ہمارے نوجوان اس لت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ایسے میں محض امن و قانون سے متعلق اداروں پر ہی تکیہ کرنا کافی نہیں بلکہ ہر فرد بشر کو آگے آکر اس کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ قوم کی نئی نسل کو اس لت سے محفوظ رکھنے کیلئے محلہ سطح پر کمیٹیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے جن کی بھاگ ڈور تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہوں لیکن ساتھ ساتھ بڑے بزرگوں کی سرپرستی بھی ناگزیر اُمور میں ہیں۔ ان کمیٹیوں کو محکمہ سطح پر اپنے حدود کے اندر مشکوک افراد پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی آفت کے موقعے پر مقامی پولیس تھانے کیساتھ اس معاملے پر اپروچ کیا جاسکے۔ نیز سیول سوسائٹی کو بھی وسیع پیمانے پر بیداری مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، پبلک پارکس وغیرہ میں بیداری مہم چلاکر متعلقین کو اس لت سے محفوظ رہنے کی ترغیب دی جانے چاہیے کیوں کہ یہ ایسے مقامات ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔اس کام میں دیری نہیں بلکہ ہنگامی نوعیت کے اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔