گذشتہ چند دنوںکی ریکارڈ توڑ گرمی نے اہلیان وادی کا حال بے حال کرکے رکھ دیا ہے۔ وادی کے چپے چپے میں گرمی کی شدت تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے جس کے نتیجے میں عام لوگوں کی نقل و حمل میں سختیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ ادھر گرمی کا پارہ بڑھ جانے کیساتھ ہی وادی کے متعدد علاقوں میں پانی کی ہاہاکار شروع ہوگئی ہے۔ شمالی ، وسطی اور جنوبی کشمیر کے بیشتر علاقوں میں پانی کی پائیپیں سوکھ چکی ہیں اور مقامی آبادی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ ان علاقوں میں پانی کی سپلائی کیلئے بچھائی گئی پائپوں میں تکنیکی خرابی واقع ہونے یا رئزروائر میں پانی کی عدم موجودگی کے نتیجے میں یہاں پانی کی ہاہاکار مچی ہوئی ہیں۔آبادی کا کہنا ہے کہ اگر چہ سال بھر کے دوران انتظامیہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں پانی کی سپلائی کو یقینی بنانے کیلئے بڑی بڑی اسکیموں پر لاکھوں کروڑوں کی رقم خرچ کرتی ہیں تاہم ایسی اسکیموں مختصر وقت تک ہی کارآمد ثابت ہوتی ہے جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ اسکیموں کی تعمیر میں ملوث کنٹریکٹر و انجینئر صاحبان محض خزانہ عامرہ سے عوامی مال لوٹنے کی کوشش کرتے ہوئے اسکیموں کی دیرپا کامیابی پر کم ہی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ لوگوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ صرف لاکھوں اور کروڑوں کی رقم میں خردبرد کرنے کیلئے عوامی مفادات کیساتھ ہر وقت کھلواڑ کیا جاتا ہے اور بس عوام کو صبر اور دلاسے کی تلقین کی جاتی ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ وادی کشمیر کے بیشتر علاقوں اور تحصیل ہیڈکوارٹروں پر گزشتہ کئی برسوں کے دوران بیشتر واٹر سپلائی اسکیموں پر کام شروع کیا گیا تاہم اسے بدقسمتی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ بعض اسکیموں پر ناگزیر حالات کے پیش نظر ادھورا ہی چھوڑدیا گیا جبکہ بعض مکمل ہونے کے محض چند دن بے کار ثابت ہوئیں جس کے نتیجے میں متعلقہ عوام کو گونا گوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے بیشتر دیہات میں لوگ پانی کی بوند کو ترس رہے ہیں۔ یہاں مقامی خواتین کو میلوں کا صفر طے کرکے پانی کی چند بوندیں اپنے کندھوں پر لادھ کر گھریلوں ضروریات کو پورا کرنا پڑرہا ہے۔لوگوں کو پانی کی عدم دستیابی کے نتیجے میں پہلے سے ہی سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، ہماری مائیں اور بہنیں موجودہ موسمی صورتحال میں میلوں دور پانی کے حصول کیلئے نہیں جاسکتیں۔ ایسے میں عام لوگ کریں تو کیا کریں؟ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی قیادت والی انتظامیہ کو عوام کی جائز مانگوں پر توجہ مرکز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دور دراز علاقوں کیساتھ ساتھ شہر سرینگر کے بیشتر علاقوں میں جہاں پانی سپلائی ایک خواب بن چکا ہے، میں یہ معاملہ حل ہوجائے۔ محکمہ جل شکتی کے اعلیٰ افسران کو معاملے کی نسبت توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ زمینی سطح پر عوام کو درپیش مشکلات و مصائب دور ہوسکے۔ اُن کا فوری ازالہ کرنے کی خاطر محکمہ جل شکتی کو ایک خاص لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے اور رکی پڑی واٹر سپلائی اسکیموں پر کام کو جلد شروع کرنا چاہیے۔ نیز انجینئر صاحبان کیساتھ ساتھ ٹھیکہ داروں کو بھی کام سے متعلق جوابدہی کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خزانہ عامرہ کو دو دو ہاتھوں سے لوٹنے کی مشق پر روک لگائی جائے۔پانی ہے تو زندگی ہے لہٰذا اس کی فراہمی کو ممکن بنانے کیلئے جو بھی اقدامات درکار ہیں انہیں بغیر کسی لیت و لعل کے اوّلین فرصت میں اُٹھانے کی ضرورت ہے۔