شہر سخن میں ایسا کچھ کر عزت بن جائے
سب کچھ مٹی ہو جاتا ہے عزت رہتی ہے
ترے ہاتھوں میں ہے تری قسمت
تری عزت ترے ہی کام سے ہے
فرمان ربانی ہے کہ، "اِنَّ الَّـذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِى الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَـهُـمْ عَذَابٌ اَلِيْـمٌ فِى الـدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَاللّـٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ”.(سورہ نور) ترجمہ:”بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمانداروں میں بدکاری کا چرچا ہو ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔”
حجتہ الوداع کے موقع پر رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، "فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ”.یعنی، "یقیناً تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تمہارے درمیان ایک دوسرے پر حرام ہیں”.(صحیح بخاری)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ، "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كره من إنسان شيئاً قال: ما بال أقوام يفعلون كذا وكذا”. یعنی، ” جب نبی کریم ﷺ کسی انسان میں کوئی برائی دیکھتے تو فرماتے لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ وہ ایسا اور ایسا کرتے ہیں ".(سنن ابوداؤد)
امر بالمعروف اور نھی عن المنکر ایک عظیم عبادت ہے۔عبادت کی ادائیگی اسی طرح کرنی ہے جس طرح شریعت ہماری رہنمائی فرماۓ۔ دعوت و تبلیغ میں یہ عظیم فریضہ خطباء انجام دیتے ہیں۔عبادات توقیفی ہیں۔کسی برائی کا تعاقب کرنا ہو یا کسی پر رد کرنا ہو شریعت کے اصول و ضوابط کا خیال رکھنا ہے۔
گناہگار سے جب کوئی برا فعل سرزد ہوجائے تو شریعت اسلامیہ نے ہمیں پردہ کرنے کی ہدایت دی ہے جب تک وہ اس برائی کی طرف لوگوں کو دعوت نہ دے۔ یہاں کوئی بھی انسان فرشتہ نہیں،خطیب و سامعین دونوں طبقات سے خطائیں واقع ہوجاتی ہیں۔ معاشرے میں پھیلی برائیوں کو مٹانے کے لئے ہمارا طریقہ کار نبوی ﷺ تعلیمات پر مبنی ہونا چاہیے۔ پوری سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایک مسلمان کی حرمت کعبہ سے بھی زیادہ ہے۔ کس طرح ایک خطیب کسی گناہ گار پر اس طرح برس سکتا ہے کہ اس کی عزت سربازار نیلام ہوجائے۔
ثانیاً کبھی کبھی گناہگار کو اس فعل کا علم بھی نہیں ہوتا جس میں وہ مبتلا ہوتا ہے۔یا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ صاحب گناہ بلوغت کی عمر سے ابھی دور ہوتا ہے۔تو کس طرح آپ کسی پر بلا تحقیق، صرف ایک ویڈیو کی بنیاد پر فتویٰ بازی کرسکتے ہیں۔خطابت کے میدان میں جذبات کی کوئی حیثیت نہیں۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ آج ویڈیو ایڈیٹنگ (video editing) اور فوٹو ایڈیٹنگ (photo editing) کی مدد سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔شرعی حدود "ویڈیو” کی بنیاد پر نافذ نہیں ہوسکتے۔
گناہگار سے ہمدردی کا مظاہرہ کرنا ہے تو انفرادی اصلاح کیجئے۔ قرآن و سنت کی رو سے بے حیائی کی تشہیر و ترویج حرام ہے، بندے کی نیت کا کوئی اعتبار نہیں جب فعل ہی باطل ہو۔ منھج سلف کے بنیادی اصولوں میں یہ اصل بھی شامل ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ادائیگی کیسے کی جاۓ۔ گناہگار کب توبہ کرے اور اللہ کا پیارا بن جاۓ، کس کے علم میں ہے؟ یہ راز فقط اللہ عزوجل اور بندے کے درمیان ہوتا ہے۔
جنت و جہنم، جزا و سزا، بخشش و مغفرت مخلوق کے اختیار میں نہیں۔ خطباء پر واجب ہے کہ سماجی برائیوں پر رد کرنے سے پہلے منھج کے اصول و ضوابط کو پڑھ لیں، سیکھ لیں۔ وادی کشمیر میں آج بھی تہجد گزار بیٹیاں موجود ہے۔ یہاں آج بھی ایسی بہنیں موجود ہیں جن کے دامن پر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔(محاورے کا ترجمہ) وادی کشمیر میں آج بھی صحابیات کے نقش قدم پر چلنے والی بیٹیاں موجود ہیں۔ دعوت کے اصول و ضوابط میں یہ بات اہم ہے کہ تربیت کی ابتدا اپنے گھر سے کی جاۓ، اپنے عیال سے کی جاۓ، اپنے بچوں سے کی جاۓ، اپنے محلے اور گاؤں سے کی جاۓ۔ خطباء کی کاروائی کے بعد ہمارے YouTube channels والے باقی قصر پوری کرتے ہیں۔ گزارش ہے کہ دعوت و تبلیغ کو مذاق نہ بنائیں، جذبات پر قابو پانا سیکھ لیں، علماء کی صحبت اختیار کریں اور علم کی مجالس میں بیٹھ کر خود کو منھجی قواعد سے مزین کریں۔
اللہ سے دعا ہے کہ ملت کشمیر کی عزت و آبرو کی حفاظت فرماۓ۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔
تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدیر :مرکز الاحسان للدعوة
رابطہ نمبر:6005465614