مرکزی زیر انتظام علاقہ جموںکشمیر میں گزشتہ کئی برسوں سے کرپشن نے اپنی جڑیں انتہائی مضبوط کردی ہے جس کے نتیجے میں عام لوگوں کا جینا انتہائی مشکل بن چکا ہے۔ سماج میں کرپشن کے اس پھلتے پھولتے ناسور کی وجہ سے عوامی مسائل کے نپٹارے میں نہ صرف مشکلات حائل ہے بلکہ بروقت معاملات کے نپٹارے میں بھی انتہائی رکاوٹیں پیش آرہی ہیں۔ سیول سیکرٹریٹ اور دیگر سرکاری دفاتر میں برسوں سے سائلین کے مسئلہ التوا میں پڑے ہوئے ہیں جن کا ازالہ کرنے کیلئے کوئی بھی قدم نہیں اُٹھایا جارہا ہے۔ یہاں کرپشن نے ایک موذی مرض کا روپ اختیار کیا ہے۔ غریب اور لاچار عوام کو مسائل کے ازالہ میں اس نظام کے اندر در در کی ٹھوکریں کھانے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے کیونکہ عام آدمی کو نہ ہی کسی سیاسی ٹھیکہ دار سے کوئی جان پہنچان ہے اور نہ ہی کوئی سفارش اس کو مہیا ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے اس ناسور کیخلاف سخت مؤقف اپنانے کا اگر چہ عہد دہرایا تاہم ملوث عناصر کیخلاف خال ہی کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی۔حکومتوں کی خالی یقینی دہانیوں نے عوام کے زخموں پر مرہم لگانے کے بجائے اُن کو مزید کرید کے رکھ دیا۔عوام آسمان سے کوئی چاند تارے لانے کا مطالبہ نہیں کرتی ہے بلکہ صرف ایسے سرکاری افسران کیخلاف کارروائی چاہتی ہے جو اس ناسور کو اپنی نااہلیت اور بدعنوانی کے ذریعے پھلنے پھولنے کا تہیہ کرچکی ہے۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش موجود نہیں کہ یہاں کا انتظامی جنگل بدعنوان افسران سے بھرا پڑا ہے جو عوامی خدمت کو ہرز جان بنانے کے بجائے سائل کے مسائل و مشکلات میں اپنی عیش و عشرت کا سامان دیکھتی ہے۔چند خودغرض کرپٹ افسران اور اہلکاروں نے یہاں کی پوری انتظامیہ کو بدنام زمانہ کی لائن میں کھڑا کردیا ہے۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندھا کردیتی ہے۔ یہ مثال ہماری انتظامیہ پر صادق آتی ہے۔ تاہم یہاں ایسے بھی افسران موجود ہیں جو تن دہی سے عوامی خدمت کو ترجیحی بنیادوں پر ادا کرکے اسے اپنا منصبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ ایسے افسران نہ صرف انتظامیہ کی شان ہے بلکہ پوری ریاست کے لوگوں کو ایسے افسران کو فخر ہے جو ہمیشہ لوگوں کی خدمت کیلئے پیش پیش رہتے ہیں۔ ریاست میں جو افسران کرپشن میں ملوث ہیں یا جن کے متعلق الزامات عائد ہیں، انتظامیہ کو چاہیے کہ اولین فرصت میں ایسے افسران کیخلاف دائر معاملات کی اعلیٰ سطحی پر تحقیقات ہو اور پوری دیانتداری کیساتھ جانچ کے اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جائے اور انتظامیہ پر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچنے نہ دی جائے۔ لیفٹیننٹ گورنر کی قیادت والی انتظامیہ نے حال ہی میں کرپشن میں ملوث عناصر کو عندیہ دیتے ہوئے کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ نیز حکومت کی جانب سے ایسے افسران و ملازمین کو58یا 60کی عمر کو پہنچنے سے قبل ہی سبکدوش کرنے کی تنبیہ کی گئی ہے۔ لہٰذااس ناسور سے اپنی ریاست کو محفوظ بنائے رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ کرپشن میں ملوث اعلیٰ افسران و ملازمین کو جبری طور پر سرکاری عہدوں سے نکال باہر کیا جائے اور انتظامیہ میں اس خلا کو پُر کرنے کیلئے دیانتدار، قابل او رمحنتی افسران و ملازمین کی تقرری عمل میں لائی جائے۔