طالبان افواج نے شمالی افغانستان میں مقامی ملیشیاؤں کے قبضے میں جانے والے تین اضلاع پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق 15 اگست کو دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد طالبان کے خلاف مسلح مزاحمت کی اطلاع اس وقت موصول ہوئی تھی جب صوبہ بغلان کے ضلع بانو، دیہ صالح اور پل حصار پر طالبان مخالف ملیشیاؤں نے قبضہ کر لیا تھا۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے مطابق پیر تک طالبان فورسز نے اضلاع کو خالی کرا لیا تھا اور وادی پنج شیر کے قریب بدخشان، تخار اور اندراب میں طالبان حکومت قائم ہو چکی ہے۔سوویت مخالف کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کی حامی فورسز نے کابل کے شمال مغرب میں ایک پہاڑی علاقہ پنجشیر وادی میں اپنی حکومت قائم کر لی ہے جہاں 2001 سے انہوں نے طالبان کے خلاف مزاحمت کی تھی۔احمد مسعود نے افغانستان کے لیے ایک جامع حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے لیکن ساتھ ساتھ اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ اگر طالبان نے وادی میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی تو وہ مزاحمت کریں گے۔اتوار کو طالبان کی الامارہ انفارمیشن سروس نے بتایا تھا کہ سیکڑوں جنگجو پنجشیر کی طرف پیش قدمی کررہے تھے لیکن فوری طور پر کسی لڑائی کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ جنوبی افغانستان سے شمال کی طرف جانے والی مرکزی شاہراہ سالنگ پاس پر کھلی ہے اور دشمن کی افواج پنجشیر وادی میں ناکہ بندی کر چکی ہے لیکن ان کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کوئی لڑائی نہیں ہے۔ذبیح اللہ نے کہا کہ اسلامک امارت مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔احمد مسعود کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ 6ہزار سے زائد جنگجو وادی میں جمع ہو چکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کچھ ہیلی کاپٹر اور فوجی گاڑیاں ہیں اور سوویت یونین کی جانب سے چھوڑی گئی کچھ بکتر بند گاڑیوں کی مرمت کی ہے۔تاہم مغربی سفارت کاروں اور دیگر نے پنج شیر میں گروپوں کی بیرونی مدد کی کمی اور ہتھیاروں کی مرمت اور دیکھ بھال کی ضرورت کے پیش نظر مؤثر مزاحمت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔