بھارت نے روس کی دعوت پر افغانستان کی صورتحال پر منعقد ہونے والے ماسکو مذاکرات میں شرکت پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔بھارتی خبر رساں ادارے انڈین ایکسپریس کے مطابق دو ماہ قبل افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے والے طالبان بھی ان مذاکرات میں شرکت کریں گے اور روس اور بھارت سمیت دیگر فریقین سے مذاکرات کریں گے۔واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان کی جانب سے کنٹرول سنبھالے جانے کے بعد بھارت نے اپنے سفارتی عملے کا وہاں سے انخلا کر لیا ہے۔بھارتی وزارت داخلہ کے ترجمان ارندم باگچی نے بھارت کی شرکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں 20 اکتوبر کو افغانستان کے معاملے پر ہونے والے ماسکو فارمیٹ اجلاس میں شرکت کی دعوت موصول ہوئی ہے اور ہم اس میں شرکت کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ اجلاس میں کون شرکت کرے گا لیکن ممکنہ طور پر جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے کی شخصیت اس اجلاس میں شرکت کرے گی۔روس 2017 سے افغانستان کی صورتحال پر ماسکو مذاکرات کا انعقاد کررہا ہے اور اب تک اس کے کئی دور منعقد ہو چکے ہیں۔اس سے قبل رواں سال مارچ میں روس نے افغانستان پر عالمی کانفرنس کی میزبانی کی تھی جس میں روس، امریکا، چین اور پاکستان نے شرکت کی تھی جس میں افغانستان میں موجود فریقین سے امن معاہدے پر پہنچنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔20 اکتوبر کو ہونے والے ان مذاکرات سے قبل 12 اکتوبر کو افغانستان پر جی20 سمٹ منعقد ہوا تھا جس میں ملک کو انسانی بحران سے نکالنے کے لیے اقدامات پر گفتگو کی گئی۔یاد رہے کہ اگست کے آخر میں قطر میں بھارتی سفیر دیپک متل نے طالبان کے نمائندوں سے دوحہ میں بات کی تھی اور ماسکو میں ہونے والی ملاقات ان کی طالبان سے دوسری ملاقات ہو گی۔طالبان کی جانب سے اقتدار سنبھالے جانے کے بعد بھارت نے طالبان کی حکومت میں اقلیتوں کی شمولیت سمیت خواتین اور بچوں کے حقوق اور دہشت گردی کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔یہ مذاکرات ایک ایسے موقع پر ہو رہے ہیں جب طالبان کی افغان حکومت داعش کے دہشت گرد حملوں سے نبرد آزما ہے اور عالمی برادری نے وہاں بڑے پیمانے پر خانہ جنگی کا خطرہ ظاہر کیا ہے۔گزشتہ روز روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ افغانستان کی صورتحال آسان نہیں ہے اور عراق اور شام سے عسکری کارروائیوں کا تجربہ رکھنے والے دہشت گرد بڑی تعداد میں افغانستان کا رخ کررہے ہیں۔اس سے قبل بھی پیوٹن بارہا خبردار کرتے رہے ہیں تو شدت پسند گروپ افغانستان میں سیاسی انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پڑوسی ممالک اور سابق سوویت ممالک میں پناہ گزینوں کے طور پر داخل ہو جائیں اور دہشت گرد کارروائیاں کریں گے۔پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان عالمی برادری سے مستقل مطالبہ کررہے ہیں کہ اس مشکل وقت میں طالبان حکومت کو تنہا نہ چھوڑا جائے اور ان کی مدد کی جائے۔گزشتہ دنوں ترک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اگر طالبان کو فوری طور پر عالمی امداد فراہم نہیں کی گئی تو خطرہ ہے کہ وہاں تشکیل پانے والی عبوری حکومت گر جائے گی جس کے نتیجے میں افراتفری اور خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔پاکستان کی طرح قطر نے بھی مغربی ممالک سے اپیل کی ہے کہ طالبان کو تنہا نہ کیا جائے۔