عراق میں گزشتہ ماہ سامنے آنے والے انتخابی نتائج کے خلاف دارالحکومت بغداد میں احتجاج کرنے والے سینکڑوں مظاہرین کی پولیس اور سیکیورٹی فورسز سے جھڑپوں میں 100 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق عراق کی وزارت صحت نے کہا کہ جھڑپوں میں 125 افراد زخمی ہوئے جس میں 27 شہری ہیں اور بقیہ سیکیورٹی فورسز کے اہلکار ہیں۔ایران کی حمایت یافتہ ہشد الشابی کا سیاسی بازو تصور کی جانے والی جماعت کی گزشتہ انتخابات میں نشستیں کم ہوئی تھیں اور اس جماعت نے ان انتخابات سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے اسے فراڈ قرار دیا ہے۔مظاہرین نے گرین زون تک جانے والے راستے تین اطراف سے بند کردیے تاہم اس کے بعد پولیس نے ہوائی فائرنگ کرکے انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔وزارت صحت کے مطابق جھڑپوں میں کوئی بھی شخص ہلاک نہیں ہوا لیکن ایران کے حامی کچھ گروپس نے پیغام رسائی کی ایپلی کیشن ’ٹیلی گرام‘ پر پولیس پر مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کا الزام عائد کیا ہے۔تاہم وزارت صحت کے دعوت کے برعکس ہشد کے طاقتور دھڑے حزب اللہ بریگیڈ نے کہا کہ پولیس کی فائرنگ سے دو مظاہرین مارے گئے۔وزیر اعظم مصطفیٰ الخادمی نے جمعہ کو ہونے والے ان تمام واقعات کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔بغداد کے گرین زون میں امریکی سفارتخانے اور الیکشن کمیشن سمیت عراقی حکومت کے دفاتر کے سبب بے پناہ سیکیورٹی ہوتی ہے۔10 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات میں ہشد نے انتخابات میں 329 نشستوں میں سے صرف 15 حاصل کی تھیں البتہ گزشتہ پارلیمنٹ میں وہ 48 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی جس کی بدولت وہ دوسرا بڑا اتحاد بننے میں کامیاب رہے تھے۔ایران کے بڑے ناقد اور اس مرتبہ انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے 70 سے زائد نشستیں جیتنے والے مقتدیٰ صدر نے جمعہ کو اپنے ٹوئٹ میں کسی فریق کی حمایت کیے بغیر پرتشدد واقعات کی مذمت کی۔سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ مظاہرین کا تعلق ہشد کے دو دھڑوں حزب اللہ بریگیڈ اور اسیب اہل الحق سے تھا۔واضح رہے کہ حزب اللہ بریگیڈ نے اسے 2003 میں صدام حسین کو امریکا کی جانب سے اقتدار سے بے دخل کیے جانے کے بعد ملک میں ہونے والے بدترین انتخابات قرار دیا تھا۔ہشد نے ملک میں موجود بقیہ ڈھائی ہزار امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا جنہیں 2017 میں داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا اور 2017 کے آخر میں ہی امریکی فوج اور عراقی حکومت نے مل کر داعش کو شکست دے دی تھی۔ہشد نے سیکیورٹی فورسز میں پھیلنے کے ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر بھی بے پناہ مقبولیت حاصل کرتے ہوئے 2018 کے انتخابات مین بہت مقبولیت حاصل کی تھی تاہم ایک سال بعد ہی اس حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔عراق میں گزشتہ ماہ ہونے والے انتخابات کے حتمی نتائج چند ہفتوں میں آنے کا امکان ہے۔انتخابات میں کم نشستوں کے باوجود ہشد عراق کی ایک اہم سیاسی قوت ہے اور عراق میں اس وقت اتحادی حکومت کے قیام اور نئے وزیراعظم کے تقرر کے لیے اتحاد قائم کرنے کے لیے کوششوں کا سلسلہ زوروشور سے جاری ہے۔