تحریر:طارق اطہر حسین
انسان کا پیدا ہونا اس دنیا میں زندگی بسر کرنا ایک مدت پر ضعیف ہونا اور موت کے جانب برزخی زندگی کے طرف بڑھ جانا ان تمام چیزوں کا لمحہ لمحہ عمل میں آنا ذہن کو تسلیم کرنے والی بات نہیں بلکہ یہ تمام عمل کا ایک خلاصہترمیم اور واضح دلیل موجود ہوگی کائنات کی تخلیق میں کوئی پراسرار طاقت موجود ہے یا نہیں یہ تمام باتیں ایک نقطہ آغاز سے ہو کر اختتام پر جا پہنچتی ہے اور کسی پیدا کرنے والے کی کبریائی چیخ چیخ کر بیان کرتی ہے جب انسان اپنے نفس کی پیروی کرتا ہے چاہے وہ نیک عمل میں کرتا ہو یا بد عمل میں لیکن وہ ان اچھے اور برے عمل کا ذمہ دار اپنی قسمت کو ٹھہراتا ہے قسمت کا لکھنے والا کوئی تو ہوگا جس نے انسانی زندگی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک انقلابی سوال چھوڑا ہے۔ ایک انسان کو دنیا میں دوست محبت اور ذہنی سکون کے تمام موضوعات ملتے ہیں لیکن پھر بھی انسان روحانی سکون محسوس نہیں کر پاتا ہے اور اپنے بے چین دل کو قرار دینے کے لئے تسلی بخش رویہ اختیار کرتا ہے لیکن اس کا ذہن اور حافظہ اور اس کا دل و جسم نفس و روح سکون کی تلاش میں مچلتا رہتا ہے اور اپنے بنانے والے کی کبریائی و شان بیان کرنا چاہتا ہے ٹھیک اسی طرح "خدا” کا وجود عمل میں آتا ہے خدا وہ جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے خدا وہ نہیں جو قبروں میں دفن ہیں خدا وہ نہیں جو موجزہ اور کرامات دیکھاتا ہو خدا وہ نہیں جو وادیوں اور جھیلوں میں بہتا ہو خدا وہ نہیں جو صبح طلوع ہوتا ہو اور شام غروب ہو جایا کرتا ہو خدا وہ نہیں جو پتھروں میں بستا ہو۔ بلکہ خدا تو اپنے شان کے مطابق عرش پر مستوی ہے اور اس کی طاقت پوری دنیا میں موجود ہے خدا تو وہ ہے جو وادیوں اور پہاڑوں کا بنانے والا ہے خدا تو وہ ہے جو جھیل ؤ دریا بہانے والا ہے خدا تو وہ ہے جو آفتاب کو حکم دیتا ہے کہ طلوع ہو جا اور چاند کو حکم دیتا ہے کے چاندی بکھیر دے خدا وہ ہے جو آتش کو بھڑکانے والا ہے اور ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش کو ٹھنڈا کرنے والا ہے خدا تو وہ ہے جو مچھلیوں کو ہزاروں ٹن روزآنہ خوراک فراہم کرتا ہے اور یونس علیہ السلام کو اسکا خوراک بننے سے بچانے والا ہے خدا تو وہ ہے جو یوسف علیہ السلام کو اندھیرے کنویں میں روشنی پہنچاتا ہے۔ کیا لوگ اس خدا کی حقانیت سے آگاہ نہیں ہے ؟
خدا کے تصور کے لئے ایک مذہب میں داخل ہونا اہم ہے۔ عام طور پر مذہب ایک ایسا وسیلہ ہوتا ہے جس سے کسی دین کو ماننے کی وجہ سے ذہنی سکون آسودگی اور روحانی آرام میسر ہوتی ہے لیکن دنیا میں کم و بیش درجنوں مذاہب موجود ہیں اور ان درجنوں مذاہب میں سیکڑوں خدا کی پرستش کی جاتی ہے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مذہب دو طرح کے ہوتے ہیں ایمان فلسفے کے ساتھ اور ایمان بلا فلسفہ۔
ہم میں سے ہر ایک شخص فطری طور پر شعورِ نفس رکھتا ہے خوشی کو پسند کرتا ہے غم و رنج کو نا پسند کرتا ہے تنہائی میں اپنے پیدا ہونے کا مقصد جاننے کی کوشش کرتا ہے لیکن ذہنی لزت خود پرستش ایک الگ چیز ہے جو انسان کو دنیا میں جنت کا نظارہ کرواتی ہے اور آخرت سے دور کر دیتی ہے۔ انسان مستقبل کے بارے میں مزید اپنے ذہن و فکر دل و دماغ پر زور دیتا ہے مستقبل کو روشن کرنے اور سنوارنے کے لئے جدوجھد کرتا ہے بے شمار تکلیفیں برداشت کرتا ہے لیکن اپنے دینی مقاصد روحانی تربیت کے لئے غافل رہتا ہے۔ جسمانی معاملات کا تعلق، جسمانی سہولیات، قوت بخش اور گرم خون صلاحیت، عمدہ خوراک، لباس، رہنے کے ٹھکانے، آواز، خوشبو، خوبصورتی، اور دولت کے باوجود بھی کچھ لوگ دلی سکون کی تلاش میں بھٹکتے رہتے ہیں۔
ماضی کے دستاویزات سے انکشاف کیا گیا ہے کہ پہلے کے لوگ ذہنی سکون کے لئے مذہب کا سہارا لیا کرتے تھے جسکے سبب مذہب انکے ایمان میں حرارت پیدا کرتا تھا اور خدا کی حقانیت کا احساس دلاتا تھا۔ حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو "اسلام” سے اچھا اور پاک مذہب کوئی نہیں ہے۔ بلاشبہ یہ مذہب ایک خدا کی حقانیت کا احساس دلاتا ہے اور دنیا ؤ آخرت میں فاںٔدہ پہنچاتا ہے۔ عنوان کے مطابق "مذہب کی ضرورت و اہمیت” میں دیکھا جائے تو اسلام مذہب کی تعلیمات و احکامات دنیا میں بھلائی کے لئے ضروری ہے۔ لفظ دین، جس میں ایک معنی ہے طریقہ اور روشن، اور قرآن کی اصطلاح میں لفظ دین ان اصول واحکام کے لیے بولا جاتا ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تک سب انبیاء میں مشترک تھا، قرآن کا ارشاد ہے ”شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہِ نُوْحًا“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین سب انبیاء کا ایک ہی تھا، یعنی اللہ پر دل سے ایمان، زبان سے اقرار کرنا، روزِ قیامت اور اس میں حساب وکتاب اور جزا وسزا اور جنت و دوزخ پر دل سے ایمان لانا اور زبان سے اقرار کرنا، اُس کے بھیجے ہوئے ہر نبی و رسول اور اُنکے لائے ہوئے احکام پر اسی طرح ایمان لانا اور لفظ شریعت یا منہاج یا مذہب فروعی احکام کے لیے بولے جاتے ہیں جو مختلف زمانوں میں اور مختلف امتوں میں مختلف ہوتے چلے آتے ہیں، اور لفظ اسلام کے اصلی معنی ہیں اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردینا، اور اُس کے تابع فرمان ہونا، اس معنی کے اعتبار سے ہر نبی ورسول کے زمانے میں جو لوگ اُن پر ایمان لائے اور اُن کے لائے ہوئے احکام میں اُن کی فرمانبردای کی وہ سب مسلمان اور مسلم کہلانے کے مستحق تھے، اور ان کا دین دین اسلام تھا اسی معنی کے لحاظ سے حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا: ”وأمرتُ أن أکون من المسلمین“ (یونیس: ۷۲) اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے اسی معنی کے اعتبار سے کہا تھا ”واشہد بأنا مسلمون“ (آل عمران: ۵۲) اور کبھی یہ لفظ اسلام خصوصیت سے اُس دین وشریعت کے لیے بولا جاتا ہے جو سب سے آخر میں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔ دین کے اصول اور اصل معنی کو ملک کے بڑے بڑے علماء اکرام گوا وہ کسی بھی مذہب سے ہوں اور ملک کے بڑے بڑے سیاست دان البتہ وہ کسی بھی پارٹی کے رہنما ہوں اگر مذہب کو جاننے اور سمجھنے لگے تو پوری دنیا میں اسلام واحد دین باقی رہے گا کیونکہ ہر مذہب کے کتابوں میں ایک خدا کے طرف آمادہ کیا گیا ہے۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب (رگ وید جلد ۸ سلوک ۱)
(ترجمہ ۔ایک ہی ایشور ہے جس کی عبادت اور پرستش کی جائے جو ایک الہ ہے مالک ہے اس کے سوا کوئی پوجا کے عبادت کے لائق نہیں ہے ،نہیں ہے نہیں ہے اور کبھی نہیں ہے ۔) ہمارے ہندو بھائیوں کو خدا کے وجود کے بارے میں غلط تعلیمات دی گئی ہے۔ اللہ رب العزت جسے چاہتا ہے سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔
طارق اطہر حسین عبدلحمید نگر برنپور آسنسول مغربی بنگال ہندوستان