ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایک سینئر مشیر نے اتوار کو قطر کے الجزیرہ ٹی وی کو بتایا کہ ایران تکنیکی طور پر جوہری بم بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ اسے بنایا جائے یا نہیں۔ شائع خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کمال خرازی نے یہ بات ایک ایسے موقع پر کی جب ایک دن قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل اور سعودی عرب کے اپنے چار روزہ دورے کے اختتام پر ایران کو ‘جوہری ہتھیاروں کے حصول’ سے روکنے کے عزم کا اظہار کیا۔خرازی کا تبصرہ کافی اہم ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں میں دلچسپی ہو سکتی ہے جس کی اس نے طویل عرصے سے تردید کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چند دنوں میں ہم 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور ہم آسانی سے 90 فیصد افزودہ یورینیم تیار کر سکتے ہیں … ایران کے پاس نیوکلیئر بم بنانے کے تکنیکی ذرائع ہیں لیکن ایران کی جانب سے اسے بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ایران پہلے ہی 60 فیصد تک افزودگی کر رہا ہے جو تہران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے، 90 فیصد تک افزودہ یورینیم جوہری بم کے لیے موزوں ہے۔2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جوہری معاہدے سے دستبردار ہو گئے جس کے تحت ایران نے اپنی یورینیم افزودگی کے کام کو روک دیا تھا جو کہ اقتصادی پابندیوں سے نجات کے بدلے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کا ایک ممکنہ راستہ تھا۔تاہم واشنگٹن کی جانب سے معہادے سے دستبرداری اور سخت پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کے ردعمل طور ر تہران نے معاہدے کی جوہری پابندیوں کی خلاف ورزی شروع کر دی تھی۔
پچھلے سال ایران کے انٹیلی جنس وزیر نے کہا تھا کہ مغربی دباؤ تہران کو جوہری ہتھیاروں کی کھوج پر مجبور کر سکتا ہے جس کے بنانے پر خامنہ ای نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں ایک فتوے میں پابندی عائد کر دی تھی۔ایران کا کہنا ہے کہ وہ صرف شہری توانائی کے استعمال کے لیے یورینیم کو ریفائن کر رہا ہے اور اگر امریکا پابندیاں ہٹا کر دوبارہ معاہدے کی پاسداری کرتا ہے تو بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کا سلسلہ رک سکتا ہے۔ویانا میں تہران اور بائیڈن کی انتظامیہ کے درمیان 11 ماہ کی بالواسطہ بات چیت کے بعد ایک بحال شدہ معاہدے کے خاکے پر بنیادی طور پر مارچ میں اتفاق کیا گیا تھا۔لیکن بات چیت پھر رکاوٹوں کی وجہ سے رک گئی تھی جس میں تہران کا مطالبہ بھی شامل تھا کہ واشنگٹن کو اس بات کی ضمانت دینی چاہیے کہ کوئی بھی امریکی صدر اس معاہدے کو ترک نہیں کرے گا، جیسا کہ ٹرمپ نے کیا تھا۔
بائیڈن اس کا وعدہ نہیں کر سکتے کیونکہ جوہری معاہدہ ایک ایسا سیاسی معاملہ ہے جو قانونی طور پر معاہدہ کی پابندی کا متقاضی نہیں ہے۔خرازی نے کہا کہ امریکا نے جوہری معاہدے کے تحفظ کی ضمانت نہیں دی اور یہ بات کسی بھی معاہدے کے امکان کو ختم کر دیتی ہے۔ادھر اسرائیل نے دھمکی دی ہے کہ اگر سفارت کاری تہران کے جوہری عزائم پر قابو پانے میں ناکام رہی تو وہ ایرانی جوہری مقامات پر حملہ کر دے گا۔خرازی نے کہا کہ ایران مغرب اور مشرق وسطیٰ میں اس کے اتحادیوں کے مطالبے کے برعکس اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام اور علاقائی پالیسی پر کبھی بھی بات چیت نہیں کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمسایہ ممالک کی طرف سے ہماری سلامتی کو نشانہ بنانے کی صورت میں ان ممالک اور اسرائیل کو براہ راست جواب دیا جائے گا۔