از قلم : مجاہد عالم ندوی
اسلام انسان کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے ، اسلام کی بہت سی خصوصیات ہیں ، انہی میں یہ خصوصیت بھی ہے کہ اسلام نے انسان کے لئے بہترین اقتصادی نظام دیا ہے ، جو کئی امور پر مشتمل ہے ، جن میں تقسیم میراث کا نظام بھی اہم ہے ، اسلام نے بہت سارے امور کی رعایت کرتے ہوئے اس کا نظام بنایا ہے ، جس میں مرد کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی میراث کا حقدار بنایا گیا ہے ۔
اسلام نے عورت کو وہ مثالی حقوق دیے ہیں جو آج تک کوئی کوئی تہذیب یا مذہب اسے نہیں دے سکا ، لیکن آج بھی ہمارے معاشرے میں ہماری بہن اور بیٹی کو وراثتی حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے ، جبکہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ عورت کو وراثت میں حقدار بناتا ہے ، ہم عورت کو اس کے اس حق سے محروم کیے ہوئے ہیں ، کیا دنیا دار اور کیا دین دار کوئی بھی اپنی بہن اور بیٹی کو وراثت میں حقدار نہیں ٹھہراتا ، چند برتن اور دیگر اشیاء دے کر اس کے حصّے کی جائیداد سے محروم کرنے کی روایت ہمارے معاشرے میں عام ہے ،
معاشرے کی تباہی کی ایک نشانی وراثت کی تقسیم میں انصاف کا نہ ہونا بھی ہے ، عورت کے حقوق کی پامالی میں جتنا باپ بھائی اور شوہر کا قصور ہے ، اس سے کہیں بڑھ کر علماء کرام کا قصور ہے ، جنہوں نے اس ناانصافی کو روکنے میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کیا ۔
اکثر پڑھی لکھی مسلمان عورتیں بھی محض معاشرے کے دباؤ میں آکر بھائیوں کو اپنا حق وراثت معاف کر دیتی ہیں ، لیکن یہ معافی دل سے نہیں ہوتی ہیں ، اس لیے کہ جو بہن اپنا حقِ وراثت مانگتی ہے معاشرہ اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جیسے کہ اس نے بہت بڑا جرم کر لیا ہے ۔
عورت کا یہ شرعی حق قائم کرنے کے لیے کم از کم پڑھی لکھی عورتوں کو حق وراثت کی زبردستی معافی کے اس رواج کو اپنے پاؤں تلے روند کر قرآن کا شرعی حق بحال کروانا ہوگا ۔ باپ کے فوت ہو جانے کے بعد اس جائیداد پر کسی ایک کا حق نہیں ہے ، بلکہ اب یہ امانت ہے ، ان وارثوں کی جن کو قرآن کریم نے وارث ٹھہرایا ہے ، اس امانت کو جلد از جلد اس کے وارثوں کے حوالے کریں اور وارث عورتوں کو ان کی جائیداد سے محروم نہ کریں ورنہ اللّٰہ تعالٰی کے نزدیک پکڑے جائیں گے ۔
اور آج ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے غیر شرعی رسم و رواج کو ختم کر کے اللّٰہ تعالٰی کی شریعت کو نافذ کرنے کی کوشش کی جائے ، چونکہ وراثت کا حق عورت کا وہ حق ہے جو اس کے معاف کرنے سے بھی ساقط نہیں ہوتا ، وہ جب چاہے معاف کرنے کے بعد بھی وہ دوبارہ اپنے حصے کا مطالبہ کر سکتی ہے ۔
ہم سب پر ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کا قرض ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسلامی پلیٹ فارمز سے عوام کو اسلامی قانون وراثت کے مطابق حصوں کی شرعی تقسیم کا علم سیکھایا جائے ، اور معاشرے میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ بات عام کی جائے کہ عورت کو اس کے حق وراثت سے محروم نہ رکھا جائے ، جو جائیداد آپ اپنے بیٹوں کو تاکید کر دیجیے کہ وہ اپنی بہنوں کو وراثت میں حصہ ضرور دیں ، اگر ابھی تک وراثت کا بوجھ آپ کی گردن پر ہیں تو آپ فکر کریں ، بیٹیوں کے جائز قرآنی حق کے مطالبے پر یہ کہتے ہوئے سوشل بائیکاٹ کر دیا کہ ہم نے آپ کی شادی کر کے اپنی ذمہ داریاں پوری کر دی ہیں ۔اب آپ سب کا جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ۔
حالانکہ علم میراث پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ عورت کی میراث کے بارے میں کس قسم کی تعلیمات ہیں تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ دین اسلام کا نظام میراث سب سے اچھا نظام ہے ۔
اسلام کی تعلیمات میں جو وراثت کا ذکر ہے ، وہ سمٹ کر صرف بیٹیوں کے درمیان رہ گیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا ڈیجیٹل ہوئی اور جہیز مہنگا ہوا ، غریب ماں باپ کی بیٹی خودکشی کرنے پر مجبور ہوئی ، بعض دینی شعور رکھنے والی لڑکیاں سسرال یا میکے میں کس درد و الم میں زندگی بسر کر رہی ہے وہ اندازے سے باہر کی بات ہے ۔
گجرات کے احمد آباد کی رہنے والی عائشہ عارف خان کی سسرال والوں کے برے سلوک اور جہیز کے مطالبہ سے تنگ آ کر سابرمتی ندی میں کود کر خودکشی کر لینے کے واقعہ پر سماج کے ہر طبقہ سے رنج اور افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے ، وہیں دوسری طرف سماج سے جہیز جیسی برائی کے خاتمہ کی بحث بھی تیز ہوتی جارہی ہے ۔
عائشہ کی خودکشی نے ایک بار پھر جہیز اور خواتیں پر ظلم و زیادتی کو موضوع بحث بنا دیا ہے ، ہر طرف سے جہیز کے لین دین کی مذمّت ، اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل ، اس کی سنگینی ، ٹوٹتے رشتے ، بکھرتے گھر ، بکتی زمین و جائیداد ، بڑھتی عمر کے باوجود رشتہ نہ ہو پانے کا درد ، بوڑھے اور پریشان حال ماں باپ کی تڑپ ، چھپ چھپ کر آنسو بہاتی اور بلکتی آنکھیں ، کبھی بچیوں کا تو کبھی ماں باپ کا چھتوں سے چھلانگ لگا کر ، ٹرین کی پٹریوں پر آ کر ، اپنے آپ کو ندیوں اور دریاؤں کی لہروں کے حوالہ کر کے اور طرح طرح کے دوسرے طریقوں سے اپنی زندگی سے ہی نجات پا کر اس مسئلہ سے بچنے کی تگ و دو اور اس کے دیگر خطرناک و تکلیف دہ نتائج سب کو ، خاص طور پر مسلم سماج کو کچھ سوچنے اور کر گزرنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔
اس طرح کے واقعات کسی بھی سماج اور سوسائٹی کے لیے افسوسناک ہیں ، سماج اور سوسائٹی کے وجوہات پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے ، اس واقعہ سے تمام لوگوں کو خاص طور پر مسلمانوں کو سبق لینا چاہیے ، اور معاشرے سے جہیز کی لعنت کو ختم کرنا چاہیے ۔
لیکن یہاں یہ پہلو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ لڑکیوں کا بھی اپنے والدین اور دیگر رشتہ داروں کی جائیداد میں حق ہے ، جو وراثت کی شکل میں انہیں ضرور ملنا چاہیے ، اور اگر ان کا صحیح حق صحیح تناسب سے انہیں ملنے لگے تو بہت حد تک خود بخود جہیز کی مانگ اور اس کی لعنت کچھ کم ضرور ہوگی ، اور پھر نہ وہ اپنے حق سے محروم ہوں گی ، اور نہ دوسرے لوگ مزید لالچ کے جواز کے چور راستے ڈھونڈنے میں کامیاب ہو سکیں گے ۔
خلاصہ کلام : آج جو لوگ عائشہ کو انصاف دلانے کی بات کر رہے ہیں ، میں ان سے ادبا گزارش کرتا ہوں کہ وہ عائشہ جیسی ہزاروں لڑکیاں کی جان بچانا چاہتے ہیں ، اور رسم جہیز کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہر انسان اپنے گھر سے یہ شروع کریں ، اپنی جائیداد میں سے جو قرآن کریم و احادیث رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کے لیے حصہ مقرر کیا ہے انہیں دیں ، اور اپنی اولاد کو بھی اس کی وصیت کریں ، اور یہ عزم کریں کہ نہ اپنی یا اپنے بچوں کی شادی میں جہیز لینا ہے اور نہ بچی کی شادی میں جہیز دینا ہے ، پورے معاشرے سے جہیز کی بیماری ختم ہونی چاہیے ، تاکہ اس طرح لڑکیوں کو انتہائی اقدام کرنے کی نوبت نہ آئے ، اور معاشرے کے اندر کوئی نامناسب صورت حال پیش نہ آئے ، عائشہ کی موت امت کو یہی پیغام دے رہی ہے ۔
از قلم : مجاہد عالم ندوی
استاد : ٹائمس انٹرنیشنل اسکول محمد پور شاہ گنج ، پٹنہ
رابطہ نمبر : 9508349041