مانیٹرنگ//
سرینگر:سمارٹ سٹی پروجیکٹ کے تحت جاری کام کی وجہ سے سر ینگر اور تجارتی مرکز لالچوک میں کم از کم دو ماہ تک ٹریفک نظام درہم برہم رہ سکتا ہے۔ سڑکوں پر کام مکمل ہونے میں کم از کم دو ماہ سے زیادہ کا وقت لگے گا اور اگر اندرونی ذرائع کی بات مانی جائے تو ٹریفک جام جیسی صورتحال ماہ مئی کے بعد بھی برقرار رہے گی۔۔ شہرکے مختلف روٹوں پر چلنے والی گاڑیوں جن میں لالچوک سے جے وی سی۔ بٹہ مالوسے ہمامہ بڈگام درگاہ ، بٹواڑہ، پانتھ چھوک ،صورہ ، جہانگیر چوک ، ہری سنگھ ہا ئیاسٹر یٹ اور دیگر کئی روٹوں پر چلنے والی گاڑیوں مسافروں کو اپنے اپنے مقام پر ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں پہنچاتی ہیں جب کہ ان روٹوں پر صرف پندرہ سے تیس منٹ کا سفر ہے مگر جگہ جگہ سٹاپ اور گاڑی میں اور لوڈنگ کی وجہ سے مسافر وقت پر اپنے اپنے مقام پر نہیں پہنچ پاتے ہیں ۔ سمارٹ سٹی پراجیکٹ کے تحت لال چوک (ریذیڈنسی روڈ اور ایم اے روڈ) کے دونوں اطراف بیک وقت کام شروع کیا گیا۔ ایک شہری نے بتایا کہ اگر چہ کوئی بھی اس پروجیکٹ کے خلاف نہیں ہے لیکن منصوبہ بندی اہم ہے۔ بہتر تھا کہ پہلے ایک طرف سے کام مکمل کر لیا جائے اور پھر دوسری طرف لے جایا جائے، لیکن یہاں حکام نے ہر جگہ سڑکیں کھود کر کسی کو سانس لینے کی جگہ نہیں دی،‘‘ ایک دکاندار نے کہا کہ وہ لوگ جو اس کے کنٹرول میں ہیں۔ افیئرز کو معلوم ہونا چاہیے کہ منصوبہ بندی کا مطلب ہے پہلے سے طے کرنا کہ کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے اور کب کیا جانا ہے۔ فیس لفٹ کا کام مکمل ہونے کے بعد سڑکیں سکڑ جانے کی خبروں کے بعد ن شہریوںمیں ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ریذیڈنسی میں فٹ پاتھ جو چوڑا اور خوبصورت تھا اسے سائز میں کاٹ دیا گیا ہے،” ایک اور دکاندار نے مزید کہا کہ ایم اے روڈ پر بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ایک شہر ی نے دعویٰ کیا کہ ایم اے روڈ پر کچھ پودے لگائے گئے ہیں، جو اندرونی ماحول کے لیے موزوں ہیں اور اسے نہیں لگتا کہ یہ پودے چل پائیں گے۔ ایک اور شہری کاکہنا تھا کہ مختلف اقسام کے پودے لگانا آسان ہے لیکن ان کی دیکھ بھال کی ضرورت ہے اور وہ سب جانتے ہیں کہ عبداللہ پل اور بٖڈشاہ پل پر گملوں میں لٹکے ہوئے پھولوں اور پودوں کا کیا ہوا۔ اس ضمن میں ایک سر کاری آ فیسر نے بتایاکہ آپ کو تبدیلی کا سمندر نظر آئے گا اور کام مکمل ہونے کے بعد سری نگر شہر کا نظارہ یقینی طور پر آنکھوں کو سکون بخشے گا۔ ادھرسرینگر شہر میں اس وجہ سے عام لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بالخصوص مسافر بسوں میں بے تحاشا اورلوڈنگ اور ٹریفک جامنگ کی وجہ سے طلبا و طلبات بھی وقت پر اپنے اپنے کالجوں اور یونیوسٹی تک نہیں پہنچ پاتے ہیں جس کی وجہ سے انہیںپریشانیان اٹھانی پڑتی ہیں۔۔ایک اور شہری نے ایسے ہی تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ بٹہ مالو سے حضرت بل جانے والی مسافر گاڑیاں پہلے پورے شہر کا چکر لگا تی ہیں اور پھر منزل پر پہنچ جاتی ہیں نتیجے کے طور پر آدھے گھنٹے کا یہ سفر طے کرنے میں دوگھنٹے لگ جاتے ہیں اور اس کا سب سے زیادہ خمیازہ یونیورسٹی طلبا و طالبات کو اٹھا نا پڑتا ہے۔ کشمیر یونیوسٹی میں زیر تعلیم ایک طالبہ عشرت نے بتایا کہ انکے لئے بٹہ مالو سے یونیورسٹی تک کا سفر انتہائی پریشان کن ہوتا ہے اور اکثر انہیں ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کی من مانیوں کی وجہ سے شدید نفسیاتی دبائو کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم کبھی گاڑی میں سوار ہوکر ڈرائیور سے ذرا تیزچلنے کی استدعا کرتے ہیں تو جواب میں یہ سننا پڑتا ہے کہ اگر زیادہ جلدی ہے تو آٹو رکھشا میں چلے جائیں۔