جموں: جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ ملک کی خودمختاری اور سالمیت کے خلاف کام کرنے والوں کو سرکاری نوکری کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔انہوں نے حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کا نام لئے بغیر کہا کہ ایسے ایسے افراد کے ہاں سرکاری نوکری دی گئی تھی جن کا نام سن کر لوگ ڈر جاتے ہیں۔لیفٹیننٹ گورنر نے بدھ کو جموں کے اکھنور میں ایک تقریب میں بولتے ہوئے کہا: ‘آپ سب جانتے ہیں کہ ایسے ایسے افراد کے ہاں نوکری دی گئی تھی جن کا نام سن کر لوگ ڈر جاتے ہیں’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘ایسے لوگوں کو نوکری میں رہنے کا حق نہیں جن کے کام ملک کی خودمختاری اور سالمیت کے خلاف ہیں’۔واضح رہے کہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے گذشتہ روز مزید 11 کشمیری سرکاری ملازمین کو ‘ملک کی سلامتی کے مفاد میں’ ملازمت سے فارغ کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔جن 11 کشمیری ملازمین کو سرکاری ملازمت سے فارغ کیا گیا ان میں پاکستان زیر قبضہ کشمیر میں مقیم حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کے دو فرزند بھی شامل ہیں۔قبل ازیں لیفٹیننٹ گورنر نے گذشتہ ماہ قریب پانچ کشمیری سرکاری ملازمین بشمول ایک اسسٹنٹ پروفیسر، ایک نائب تحصیلدار اور تین اساتذہ کو ملازمت سے فارغ کر دیا تھا۔ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے متذکرہ دفعہ کے تحت کشمیر میں ‘ملک مخالف سرگرمیوں’ میں ملوث ہونے کے الزام میں سینکڑوں ملازموں کو برطرف کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے لئے ایک خصوصی ‘ٹاسک فورس’ تشکیل دی گئی ہے۔سرکاری ملازمین کی نمائندہ تنظیمیں اور علاقائی سیاسی جماعتیں سرکاری ملازمین کو نوکری سے برطرف کرنے کی پالیسی پر سخت برہمی کا اظہار کر چکی ہیں۔پی ڈی پی صدر و سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کشمیری سرکاری ملازمین کو ملازمت سے فارغ کرنے کی حکومتی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ باپ کی سزا بیٹے اور بیٹے کی سزا باپ کو نہیں دی جا سکتی ہے۔انہوں نے گذشتہ روز جموں میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس کے دوران کشمیری سرکاری ملازمین کی برطرفی سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: ‘بیٹے کو باپ کی سرگرمیوں کی سزا نہیں دی جا سکتی اور اسی طرح بیٹے کی سزا باپ کو نہیں دی جا سکتی۔ اگر آپ کے پاس بیٹے کے خلاف ثبوت ہیں تو آپ کارروائی کر سکتے ہیں’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘یہ صرف 11 لوگ نہیں ہیں جن کو برطرف کیا گیا ہے۔ ان لوگوں نے اب تک 20 تا 25 ملازمین کو برطرف کیا ہے۔ انکوائری ججمنٹ نہیں۔ انکوائری جاری ہے لیکن جرم ثابت نہیں ہوا ہے ایسے میں آپ کیسے یہ فیصلہ لے سکتے ہیں کہ فلاں مجرم ہے’۔
یو این آئی