سری نگر؍11؍اپریل؍متحدہ مجلس علما جموں و کشمیر کے فیصلے اور اپیل کے مطابق، وادی کشمیر، خطہ چناب، جموں، لیہہ اور کرگل کی تمام بڑی مساجد، خانقاہوں، امام بارگاہوں، آستانوں اور زیارت گاہوں میں مجلس کے اراکین اور ائمہ کرام نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے اس کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر مجلس کی مرتب کردہ قرارداد کو پڑھ کر عوام کی حمایت حاصل کی گئی۔اس دوران مجلس سے وابستہ سرکردہ اراکین، علما اور مشائخ نے مجلس کے امیر، میرواعظ ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق کی مسلسل خانہ نظر بندی اور آج بھی انہیں جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ کی ادائیگی اور اپنے منصبی و ملی فرائض کی انجام دہی سے روکنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ علما نے حکومتی رویے کو آمرانہ، غیر جمہوری اور غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ یہ طرز عمل اہلِ کشمیر کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے اور قطعی طور پر ناقابل قبول ہے ۔قرارداد کا متن:متحدہ مجلس علما جموں و کشمیر نے وقف ترمیمی قانون 2025 کی منظوری کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قانون کی کئی دفعات مسلم برادری کے لیے وقف ادارے کے مذہبی اور تاریخی کردار کو متاثر کرتی ہیں۔یہ نیا قانون وقف املاک کے انتظام و انصرام میں بنیادی تبدیلیاں متعارف کرواتا ہے ، جس سے مسلم برادری کے روایتی، شرعی اور خودمختار کردار کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے ۔ذیل میں قانون کے چند اہم نکات بیان کیے گئے ہیں جن پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے :مسلم قیادت والے وقف بورڈز کے اختیارات میں کمی اور غیر مسلم و سرکاری افسران کو زیادہ اختیارات دیے جانے سے وقف کے مذہبی و فلاحی کردار کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے ۔مرکزی و ریاستی وقف بورڈز میں غیر مسلم افراد کی شمولیت کی اجازت اور چیف ایگزیکٹو آفیسر کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ختم کرنا، اس ادارے کے مذہبی تشخص سے انحراف سمجھا جا رہا ہے ۔ضلع مجسٹریٹ کو جائیداد کو وقف قرار دینے یا نہ دینے کا اختیار دینا، یکطرفہ فیصلوں کا موجب بن سکتا ہے اور وقف بورڈ کے اختیارات کو کمزور کر سکتا ہے ، خاص طور پر متنازع جائیدادوں کے حوالے سے ۔وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 40 کو منسوخ کرنا، ان جائیدادوں کے مستقبل کو غیر یقینی بنا دیتا ہے جو طویل عرصے سے وقف سمجھی جاتی رہی ہیں۔”وقف بالاستعمال” کے تصور کو ختم کرنا [؟] یعنی وہ مساجد، قبرستان اور مزارات جو صدیوں سے زیر استعمال ہیں لیکن ان کے پاس جدید دستاویزات موجود نہیں [؟] ان کی وقف حیثیت ختم ہونے کا خدشہ ہے ۔وقف ٹربیونلز کے فیصلوں کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کی گنجائش دینا، عدالتی عمل کو طول دے سکتا ہے اور وقف اداروں کی خودمختاری پر اثر انداز ہو سکتا ہے ۔یہ تمام نکات مسلم برادری میں فکری و عملی سطح پر گہری تشویش کا سبب بن رہے ہیں، کیونکہ وقف ادارے مذہبی، تعلیمی اور فلاحی میدانوں میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا انتظام ایسے افراد کے ہاتھ میں ہونا چاہیے جو ان اداروں کے مذہبی اور شرعی پہلووں سے بخوبی واقف ہوں۔