تحریر:-شہبازرشید
سائنس اور ٹیکنالوجی نے دور جدیدمیں انسانی زندگی کا ہر پہلو اسطرح سےمتاثر کر رکھا ہے کہ اب سائنس کے بغیر ان کے وجود کے بارے میں سوچنا تک عجیب محسوس ہوتا ہے کیونکہ جدید نسل نے اپنی زندگی کا ہر پل اور ہرسانس سائنس اور ٹیکنالوجی کے سائے میں لینے کا تجربہ حاصل کیا ہے اس لئے زندگی کے جملہ شعبہ جات سے سائنس کی علیحدگی ایسی ہی محسوس ہوتی ہے جیسے انسانی جسم سے لباس علیحدہ کیا گیا ہو۔انسان کی جدید تہذیب وتمدن کا مرکزی ستون ہی سائنس اور ٹیکنولوجی ہے جس کی عدم موجودگی میں جدیدیت کے مختلف النوع گوشے قدیمیت کےزیر اثررہتے لیکن ٹیکنولوجی نے ان میں ایک نئی روح پھونک کر انہیں قابلِ رشک بنا دیا اور ہر جگہ اپنی موجودگی کو محسوس کروایا۔سائنس کا دخل ایک باریک خلیائی اعضاء سے لیکر کائنات کے بڑے بڑے گوشوں میں دیکھا جاسکتا ہے، جینیاتی ٹیکنالوجی سے لیکر فلکیات میں جدید ترقی نے تو انسان کی حیرت میں مزید اضافہ کیا ہے اور بعض اوقات ایک عام انسان ترقی کے ان ظواہر پر سوچنے سے اس لئے گریز کرتا ہے کیونکہ ایسا کرنے میں اسے پریشان ہونے کا خطرہ لاحق رہتاہے۔کئی لوگوں کے لئے ابھی بھی چاند پر انسان کا جانا محض ایک جھوٹ ہے اور اس واقعہ کو کانسپائریسی تھیوری کے اردگرد اس لئے گھمایا جاتا ہے کیونکہ ان حضرات کے لئے یہ کام انسان کے لئے آج اگر ممکن ہے لیکن تیس چالیس سال قبل ناممکن تھا ۔حال ہی میں ناسا کے مارس پریزروینس روور مشن کے تحت تین روورس کو مارس کی سطح پر بھیجا گیا جن کا مقصد مارس کی سطح پر زندگی کے آثار کی تحقیق کرنا ہے اگرچہ کوئی مثبت خبر اس حوالے سے ابھی موصول نہیں ہوئی ہے لیکن مستقبل قریب میں مریخ کی سطح پر انسانی قدم پڑنے کے قوی امکانات موجود ہیں اور اسی کے مقابل انتہا پر ڈی این اے ریکمبیننٹ ٹیکنالوجی کو دیکھا جائے تو وہاں انسان بھی حیران ہے کہ اتنا جسم رکھنے کے باوجود ڈی این اے جیسے باریک ترین میٹئرئیل میں گھسنا شاید کہیں خواب تو نہیں۔معلومات کا حیرت انگیز منبہ ڈی این اے جو ایک دھاگے کی شکل میں انسانی خلیئے کے اندر تقریباًچھ فٹ لمبائی کا ہے اگر انسان کے تمام خلیوں کے ڈی این اے کو جوڑا جائے تو اس کی لمبائی تقریباً گیارہ ارب کلو میٹر بنتی ہے جو زمین کے سورج کے فاصلے سے ستر گنا سے بھی زائد ہے ۔کہا جاتا ہے کہ اگر ایک ٹائپسٹ 60 الفاظ فی منٹ کی رفتار سے 8 گھنٹہ روزانہ ڈی این اے کے نیو کلیو ٹائیڈ ز کو ظاہر کرنے والے مخفف حروفِ تہجی ہی کو ٹائپ کرے تو بغیر کسی چھٹی اور آرام کے پندرہ سال میں صرف ایک خلیے کا ڈی این اے لکھا جاسکتا ہے ۔جبکہ اس سے جو کتاب تیار ہوگی اگر اس کے ایک ایک صفحے پر پانچ سو الفاظ ہوں اور کل 1000صفحات ہوں تو ایسی 280 کتابیں تیار ہونگی جن پر صرف ایک خلیے کی معلومات ہوگی ۔سائنس اور ٹیکنالوجی نے انفارمیشن کے اس حیرت انگیز وسیع سمندر میں کامیاب قدم ڈالا ہے اور دن بدن نت نئے ا نکشافات سامنے لا رہی ہے جو انسانی زندگی پر گہرا اثر ڈالنے کی مکمل اسکیم کاخاکہ ذہن میں بناتی ہے۔جینیات کے میدان میں انسان کی معیاری ترقی نے حوصلوں کو اس قدر بلند کیا ہے کہ انسان مستقل طور پر کلون بنانے پر کام کررہا ہے جس سے مستقبل میں بے شمارحیاتیاتی اور اخلاقی مسائل پیدا ہونے کے خدشات ہیں۔بائیو ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کئے گئے جینیٹیکلی موڈیفائیڈ جاندار جہاں انسانیت کے لئے مفید ہیں وہیں ڈھیر ساری مشکلات کو اپنے پہلو میں لئے ہوئے ہیں ۔اسطرح سے گویا سائنس انسانی زندگی کو جہاں بے شمار آسائشیں فراہم کرتی ہے وہیں انسان کی زندگی سے سکون کی دولت کو رفتہ رفتہ رخصت کرنے کا ایک اچھا خاصا موادبہم پہنچاتی ہے۔انسان کو سکون جہاں خدا کی عبادت سے حاصل ہوتا ہے وہیں معاشرے کے بے شمار تعلقات کے حقوق کی ادائیگی سے حاصل ہوتا ہے لیکن سائنس نے بلاشبہ انسان کے لئےان حقوق کی ادائیگی میں ایک رکاوٹ کھڑی کر دی ہے مثال کے طور پر سیل فون کو ہی لیں ایک زمانہ تھا کہ لوگ ایک دوسرے کی خبر گیری کے لئے بنفسِ نفیس ملاقات کے لئے جاتے تھے لیکن آج یہ سارا کام برقی سگنلس کی مدد سے کیا جاتا ہے اور انسان کا انسان کے ساتھ وہ تعلق نہیں رہا جو معاشرے کے لئے مفید ہوتا بلکہ اب سیل فون کی وجہ سے ہر ایک محدود ہو کر ایک دوسرے سے کٹ چکا ہے ۔یہ کٹ جانا جہاں انفرادی طور پرانسان کو نقصان پہنچاتا ہے وہیں سوسائٹی کی روح بھی اس سے مجروح ہوتی ہے ۔مستقبل میں ٹیکنولجیکل ٹولز نے اکثرو بیشتر کاروبار میں انسان کی جگہ لینی ہے جس سے جہاں انسان بے شمار جسمانی کاموں سے بچ جائے گا وہیں بے شمار ذہنی امراض سے متاثر ہوگا ۔
سائنس نے تاریخ کی رفتار ہی بدل دی ہے وہ واقعات جن کو وقوع پذیر ہونے میں ایک عمر چاہئے تھی وہ اب لمحات میں واقع ہوتے ہیں مثلاً ایک زمانے میں پیغام پہنچانے کے لئے کئی سال اور کئی ماہ لگتے تھے لیکن اب ان کی ترسیل چند سیکنڈ میں انٹرنیٹ کے ذریعہ ممکن العمل ہوئی ہے۔انسان کی جملہ صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی نے تو ایک محیر العقول کام کیا ہے کہ انسان کی آنکھ کوکہکشاؤں میں سیر کرنے کا موقعہ ملا،انسانی کانوں کو ہزار ہا میل دورسے آواز کو سنننے کاموقعہ ملا ،زمین سے دور چاند کی مٹی کو چھونے کو موقعہ ملا ،سمندر کی تہہ پر لیٹ جانے موقعہ ملا،ان چیزوں کو محسوس کرنے کا موقعہ ملا جن کے وجود کے بارے میں بھی انسان نےپہلے کبھی نہیں سوچا تھا ۔انسانی تاریخ میں جو کچھ انسان سوچ سکتا تھا آج وہ سائنس کی مدد سے مادی ہیئت میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔سائنس مستقبل میں سوسائٹی میں انسانی مناصب کی جگہ لے کر ایک خاص قسم کا بحران پیدا کرے گی جس میں انسان کو اپنا پیٹ اور اپنے مال مویشی کا پیٹ پالنے کے بدلے مشینوں کی ضروریات کو پورا کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے انسانی تعلقات کٹتے جائیں گے اور ایک نہایت انفرادیت والا ماحول قائم ہو سکتا ہے ۔انسان کو انسان کی ضرورت کم محسوس ہوگی جیسے کہ مغرب میں سائنسدانوں نے جنسی گڑیا اور مادہ روبوٹس تیInsanار کئے ہیں جو انسان کو شادی وغیرہ کے بکھیڑے سے آزاد کرنے کے لئے ایک موئثر تدبیر ہے ۔
سائنس کی ترقی انسان کی زندگی کو بالکلیہ تبدیل کر کے رکھ دے گی یہ اب محض ایک خدشہ نہیں بلکہ عین حقیقت کا روپ اختیار کرچکا ہے ۔قدیم زمانے میں انسان کو جن جن خطرات کا خوف لگا رہتا تھا اب ان کی جگہ مستقبل میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا خطرہ درپیش رہے گا۔مثال کے طور پر اگر قدیم انسان کو قدرتی آفتوں کا خطرہ لاحق رہتا تھا لیکن اب ان کی جگہ سائنسی خطرات کاخوف لگا رہتا ہے ، جن میں نیوکلئیائی ہتھیار ،ماحولیاتی تپش ،مصنوعی ذہانت اور جینیاتی طور پر تخلیق کردہ وائرس شامل ہیں ۔انسان نے خود اپنی مصنوعیات کے باعث خوف اورپریشانی کا جال اپنے اردگرد کس لیا ہے جس سے نکلنے کی کوشش مزید اسے پھانسنے کا باعث بنتی ہے ۔آئے دن سائنس اور ٹیکنالوجی کےبرامدات انسان کے لئے نت نئے چیلنجز پیش کرتے ہیں ۔امریکہ میں مقیم ایک سائنسدان اور تجزیہ نگارڈاکٹر مسعود ابدالی سے بات کرتے ہوئے مجھے یہ جاننے کا موقعہ ملا کہ گھروں میں بیڈروم کی دیواروں پر لگایا گیا ایل ای ڈی ٹی وی دراصل ایک مخبر ہے جو آپ کے کمرے کا معائنہ کرتا رہتا ہے اور جس کے ذریعے آپ کی پوری انفارمیشن ہیکر کو ملتی ہے انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارا سیل فون بھی ہمارا مخبر ہے جو انسان کی پرائویسی تک کا معائنہ کرتا رہتا ہے اس لئے مستقبل میں انسان کو سائنس پر قابو پانے کی اتنی ہی کوشش کرنی پڑے گی جتنا کہ آج اس کے ذریعے دنیا میں موجود ہ وسائل پر قابو کرنے کے لئے سائنس کا استعمال کرنا پڑتا ہے ۔مستقبل میں انسان ٹیکنالوجی کے زیرا ثر ہر لمحہ اور ہر جگہ متاثرہوتا رہےگا ۔انسان ٹیکنالوجی کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ اپنے تخلیہ ،اپنی حفاظت ،اپنی عزت کوبھی داو پر لگانے کا خطرہ مول لے گا المختصر مستقبل میں انسان کی جنگ سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہوگی اگر چہ آج انسان جنگ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال کررہا ہے لیکن آنے والے سالوں میں انسان کا براہ راست مقابلہ ڈرون ،روبوٹس اور دیگر ان جیسے ٹولس کے ساتھ ہوگا ۔ جو کچھ آج فکشن موویز میں دکھایا جاتا ہے مستقبل قریب میں وہ حقیقت بن کر ہمارے سامنے آرہا ہے ۔فوربس میگزین میں لکھے گئے ایک مضمون کے مطابق سائنس کی حیرت انگیز ترقی انسان کے لئے مستقبل میں ایک خطرناک خطرہ پیش کر سکتی ہے ۔
انسان نے فکشن کے طور پر جو کچھ سوچا اور لکھا تھا وہ آج حقیقت کے طور پر سامنے ظاہر ہونے لگا ہے ۔کون کہہ سکتا تھا کہ 1897 میں مشہور ناول نگار ایچ جی ویلز کا لکھا گیا ناول نادیدہ آدمی حقیقت کا لباس پہن کر عین حقیقت بن کر سامنے آئی گی ۔اس ناول میں ایچ جی ویلز نے لکھا ہے کہ ایک سائنسدان ایسا میٹرئیل بناتا ہے جس کو پورے جسم پر ملنے کے بعد وہ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے ،وہ سامنے سے بھی گذرتا ہے لیکن صرف پیروں کے نشانات دیکھے جاتے ہیں باقی پورا جسم ناقابل دید ہوتا ہے لیکن 2017 میں سائنسدانوں نے ایسا میٹرئیل نینوٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کیا ہےجس کی مدد سے کسی بھی چیز یا انسان کو نادیدہ بنایا جاسکتا ہے ۔کینیڈا کی کمپنی ہیپر اسٹیلتھ بایو ٹیکنولوجی نے ایک ایسے ہی میٹئریل کی پتلی پرت تیار کی ہے جو چیزوں کو نگاہوں سے اوجھل کر سکتی ہے ،اس میٹرئیل کو کوانٹم سٹیلتھ کہا جاتا ہے ۔سائنسدانوں نے حال ہی میں ایک طریقہ دریافت کیا ہے جس کے مطابق عمارتوں کی تعمیر میں استعمال کئے جانے والے اینٹوں کو طاقت کے ذخیرہ کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ،اینرجی کو سٹور کرنے والی ان اینٹوں کو سپر کیپاسٹر کہاجاتا ہے جن پر پیڈاٹ کی کوٹینگ چڑھائی جاتی ہے ،اس طرح کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن میں سائنس اور ٹیکنالوجی جدید انسان کومستقبل میں ایک نئی دنیا کا نظارہ پیش کرتی ہے جہاں ہر شئے ٹیکنولوجی کی مرہونِ منت ہوگی ۔ارتقاء پذیر ٹیکنالوجی جیسے انڈسٹرئیل روبوٹس ،مصنوعی ذہانت اور مشینی تعلیم حیرت انگیز رفتار سے انسانی زندگی کے ہر گوشے یں اپنی اہمیت ظاہر کر رہے ہیں ۔یہ سائنسی ترقی جہاں رفتار ،کوالیٹی اور قیمت میں بہتری لا سکتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ میں ہ بے شمار انسانوں کی خدمات کو ٹھکانے لگا سکتی ہیں جس سے ایک سخت بحران کے پیدا ہونے کلا خدشہ ہے ۔لوگ زیادہ سے زیادہ بے روزگار ہونگے ،انسانی خدمات کی جگہ مشینیں لیں گی یہاں تک خدشات ہیں کہ مستقبل میں یہ انسان شادی بھی ان جنسی ڈولس کے ساتھ رچائے گا جنہیں کھلانے پلانے سے انسان آزاد ہے ۔یہ جنسی گڑیاں انسانی معاشرے کو پار پار کرنے کا الارم پیش کررہی ہیں ۔
مصنوعی ذہانت انسان کے لئے مستقبل میں واقعی ایک خطرہ ہے ۔ماہریں کا خیال ہے کہ اگر انسان ایک ایسی سپر انٹیلیجنٹ مشین تیار کرتا ہے جو انسان کی ذہانت کا مقابلہ کرنے کی اہل ہو تو انسان کا اس دنیا میں رہنا دو بھر ہو جائے گا اور اس قسم کی مشین انسان کی آخری ایجاد ہو گی ۔انسان اس دنیا میں دیگر تمام مخلوقات پر اپنا غلبہ اپنی ذہانت کے بل بوطے پر قائم کرتا ہے اب اگر کوئی مشین اس قدرذہین بنائی جائے جو انسان کی جملہ صلاحیتوں کا مقابلہ کرے تو اس سے لامحالہ انسان کے وجود کو خطرہ ہے۔اب تو زیادہ سے زیادہ وہ مشینیں بنائی جا رہی ہیں جو آٹومٹیک ہیں جنہیں انسان کے کنٹرول کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی اور جانہیں مستقبل میں زیادہ سے زیادہ خود مختار بنانے کی اعلی ٰ کوشش کی جارہی ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے مستقبل میں خود مختار مشینیں بڑے پیمانے پر مارکیٹ میں آئیں گیں جو انسان کے بغیر ہر کام انجام دے سکتی ہیں ۔ایک دوسرا مسئلہ جو انسان کو ٹیکنالوجی کی وجہ سے مستقبل میں پیش آئے گا وہ ذہانت کا دھماکہ ہے جو مصنوعی ذہانت کی وجہ ایک متوقع واقعہ ہے۔اس حوالے سے معروف برطانوی ریاضی دان ایرونگ جاہن گوڈ نے 1965 میں کہا تھا کہ آرٹیفیشل جنرل ایٹیلیجنس مستقبل میں اینٹیلیجنس ایکسپلوجن کو جنم دے گی ۔اس کی رائے کے مطابق انسان مستقبل میں ایک متوقع سپر ہیومن مشین ایجاد کرے گا جس کا مقابلہ کرنے کی ہمت انسان کے پاس مشکل ہی سے ہو گی ۔وہ لکھتا ہے :”ایک الٹرا اینٹیلیجنٹ مشین وہ مشین ہوگی جو کسی بھی انسان کی ذہانت و فطانت کو پیچھے چھوڑے گی۔ایک الٹرا انٹیلیجنٹ مشین اتنی باصلاحیت ہوگی جو خود دوسری بہتر سے بہترمشینوں کو بنا سکتی ہے پھر بغیر کسی سوال کے ذہانت کا دھماکہ ہوگا اور انسان کی قابلیت کو مات دی جآائے گی ۔اسطرح سے یہ سپر انٹیلیجنٹ مشین انسان کی آخری ایجاد ہوگی ۔”خیر یہ ایک ہائپاتھسیز ہے لیکن مستقبل میں ضرور سائنس اور ٹیکنالوجی انسان کے لئے بے شمار مسائل پیدا کرے گی ۔کیمبرج یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق انسان کو اس دنیا میں سب سے زیادہ خطرہ خود انسان کی بنائی ہوئی چیزوں سے ہے جس میں جدید ٹیکنولوجی سرفہرست ہے ۔