وادی بھر کے پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلنکوں میں مریضوں کی تشخیص کے نام پر بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ یہاں مریض کی ہسپتال کے احاطہ کے اندرقدم رکھنے کی دیر ہے کہ درجنوں تشخیص پر مبنی ایک فہرست اس کے ہاتھوں تھمائی جاتی ہے جو کہ سماج کیلئے کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ یہاں جب بھی ڈائیگناسٹک مراکز کی بات چھڑ جاتی ہے تو عام آدمی کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ دس ڈیڑھ دہائی کے دوران یہاں صحت سے متعلق خدمات فراہم کرنے کی آڑ میں ہزاروں ڈائیگناسٹک مراکز قائم کئے گئے جن میں باوثوق ذرائع کے مطابق بیشتر بغیر لائسنس کے اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شہر سرینگر کے نامی گرامی ان ڈائیگناسٹک مراکز میں عام مریضوں کو دو دوہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے جس پر متعلقہ محکمہ کیساتھ ساتھ مجموعی انتظامیہ خاموشی اختیار کئے ہوئی ہے۔معمولی سے معمولی نوعیت کی تشخیص کیلئے یہاں ہزاروں کی رقم ادا کرنی پڑتی ہے کیوں کہ اسے ستم ظریفی ہی کہیے گا آج کی تاریخ میں ہمارے یہاں موجود سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو درکار جملہ سہولیات ابھی تک فراہم نہیں کئے گئے ہیں جس کے نتیجے میں مریضوں کو چار و ناچار ان نجی مراکز کا رخ کرنا پڑتا ہے۔یہاں خون کی جانچ کیلئے مریض کو 800سے 1200تک ادا کرنے پڑتے ہیں جبکہ بعض اوقات مزید جانچ کیلئے دو ہزار سے بھی زائد کی رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ ایکس رے جس کی سرکاری ہسپتالوں میں 80روپے کی ریٹ مقرر ہے ، ان نجی مراکز پر 700سے زائد کی رقم ادا کرکے ہی مریض دوسری مرتبہ ڈاکٹر تک رسائی حاصل کرنے کے قابل بن جاتا ہے۔ ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین کروانے کیلئے یہاں 7000سے زائد کی رقم بھرنی پڑتی ہے ، قطعہ نظر کہ مریض جو موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے، یہ رقم ادا کرنے کی سکت رکھتا ہے بھی یا نہیں! عوامی حلقوں نے متعدد مرتبہ حکام بالا کو مداخلت کرنے کی اپیلیں کی تاہم وقتی طور چند مراکز کا دورہ کرکے یہاں کے حکام نے اخباروں میں اپنی جگہ بناکر معاملے کو گول کرنے کی کوشش کی۔ صحت عامہ سے متعلق سہولیات کو بہم رکھنا انتظامیہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔ وادی کشمیر میں جہاں ہر ضلع اور سب ضلع پر سرکاری ہسپتالوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، نیز چھوٹے چھوٹے ہیلتھ سنٹرز بھی گزشتہ برسوں کے دوران تعمیر کئے گئے تاہم محض چند ہی ایسے ہسپتال ہوں گے جہاں پر حکومت نے ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین کی سہولیات بہم رکھی ہوگی۔ لیکن مریضوں کے دبائو کے پیش نظر یہاں ایم آر آئی کیلئے مریض کو مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہوگی کہ بعض مریضوں کا نمبر تب آگیا جب ان کا چالیسواں بھی گزر گیا تھا۔ سرکاری ہسپتالوں میں جانچ سے متعلق سہولیات کے فقدان کے نتیجے میں نجی کلنکوں نے اس مقدس پیشے کو تجارتی شکل دی جس کے نتیجے میں اس شعبہ کی عوامی شبیہ بری طرح متاثر ہوگئی۔محکمہ صحت کو اس معاملے میں سنجیدہ اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔جب اس مقدس شعبہ کو ٹھیکہ داری اور تجارت کی غرض سے جاری رکھا جائیگاتو اس میںکسی ابہام کی گنجائش نہیں کہ یہاںکے ہسپتال شفا خانوں کے بجائے ذبح خانوں کا رول انجام دیں گے۔