انسانی زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک ہے انسان کی زندگی کا نجی پہلو يا جس کو ہم انسان کی ذاتی زندگی بھی کہتے ہے اور دوسرا ہے انسان کی زندگی کا سماجی پہلو جس سے انسان کا سماجی رہن سہن اخذ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ ایک انسان کی زندگی کے یہ دونوں پہلو یکساں ہو نا ہی یہ ضروری ہے کہ انسان کی نجی زندگی اور سماجی زندگی میں ایک توازن برقرار ہو۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ سماج میں نظر آنے والا ایک خوشحال انسان ذاتی زندگی میں بھی اتنا ہی خوش ہو جتنا خوش وہ دوستوں، رشتہ داروں اور اپنے قریبی لوگوں کے درمیان نظر آتا ہو۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ زندگی ایک خوش نما خواب ہے جو دکھنے میں تو حسین نظر آتی ہے مگر حقیقت میں بہت ہی تلخ اور سخت ہے۔ یہ زندگی سب کے لیے یکساں نہیں ہوتی بلکہ یہ کسی کے لیے پھولوں کی سیج ہے تو کسی کے لیے کانٹوں کا بستر۔ ہم اکثر دیکھتے ہے کہ ہم میں سے بہت سارے لوگ اپنے دوستوں کے درمیان خوش طبع، ہنس مکھ اور خوش مزاج نظر آتے ہیں لیکن انکی نجی زندگی میں بہت سارے مشکلات و مسائل ہوتے ہیں اور وہ جینے کے لیے زندگی سے ایک قسم کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان کو زندہ رہنے کے لئے سماج میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جُل کر رہنا پڑتا ہے، اُن کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، کام کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے انسان کی زندگی میں چاہے کتنے ہی مصائب، غم اور پریشانیاں کیوں نہ ہو لیکن وہ دوسروں کے سامنے ہمیشہ خوش حال دکھنا پسند کرتا ہے۔ اپنے سینے میں مصائب کا پہاڑ چھپائے وہ ہمیشہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنی نجی زندگی کے بارے میں بحث نہ کرے۔
اگرچہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی ساخت اور بناوٹ یکساں بنائی ہے لیکن ہر انسان کی ذہنی قوت دوسرے انسان سے مختلف ہوتی ہے۔ ہر انسان کے عادات الگ ہوتے ہے اور ہر انسان کے سوچنے کا طریقہ مختلف۔ یہ سب چیزیں انسان کی نجی زندگی پر گہرا اثر ڈالتے ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر انسان کا طرزِ زندگی اور رہن سہن مختلف ہوتا ہے۔ لہذا یہ سوچنا بڑی نادانی ہوگی کہ دنیا میں ہر انسان کی نجی زندگی یکساں ہوتی ہے۔ کوئی انسان اپنی مثبت سوچ اور ذہنی قوت سے ترقی کے کئی منازل طے کرتا ہے اور اسکی نجی زندگی نہایت ہی خوشحال ہوتی ہے تو کوئی انسان اپنی کم عقلی اور کم علمی کی وجہ سے اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ کوئی مجبوریوں کے جھال میں پھنس کے رہ جاتا ہے اور چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پاتا۔ مختلف انسانوں کی نجی زندگیوں میں مختلف قسم کے حالات و واقعات رونما ہوتے ہیں جو ان کی زندگیوں کو مختلف موڈ دیتے ہے۔ ان سب وجوہات کی بنا پر ہر انسان کی نجی زندگی دوسرے انسان سے مختلف اور الگ ہوتی ہے۔
یہ ایک انسانی فطرت ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی چاہتا ہے کہ ہماری نجی زندگی کے معاملات اور اسکے راز صرف ہم تک محدود رہے اور اس میں کسی دوسرے انسان کی بے جا مداخلت نہ ہو۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی ذاتی زندگی کا مختارِ کل ہوتا ہے اور یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کسی دوسرے انسان کو اپنی ذاتی زندگی کے کس حد تک آشنا کرے۔ ہر انسان کی ذاتی زندگی کے کچھ ایسے پہلو ہوتے ہے جن میں وہ دوسرے انسان کی مداخلت بلکل بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ نجی زندگی کے کچھ مسائل ہم صرف خود تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ جیسے زندگی کے کچھ لمحات خلوت کے متلاشی ہوتے ہیں ویسے ہی انسانی زندگی کے کچھ راز نجیت پسند ہوتے ہے۔ ہر انسان کی نجی زندگی کے کچھ مسائل بہت ہی پیچیدہ ہوتے ہیں جن کے اسباب ہم چاہ کے بھی دوسرے لوگوں کو نہیں سمجھا سکتے۔ ایسے حالات میں ہم اپنے ان مسائل کی رازداری صرف اپنے وجود کے ساتھ چاہتے ہے اور دوسرے لوگوں کی مداخلت ناپسند کرتے ہیں۔ لیکن جب ہم اپنے اپنے اِرد گِرد نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بہت سارے ایسے لوگ نظر آتے ہیں جن کی ایک بہت بری عادت ہوتی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کی نجی زندگیوں میں بے جا مداخلت کے عادی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی زندگی پر دھیان دینے کے بجائے دوسرے لوگوں کے مسائل پر زیادہ غور و فکر کرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ ہمارے سماج میں اکثر لوگ دوسرے انسانوں کی نجی زندگیوں کی رازداری کا احترام کئے بغیر اُن کے معاملات میں ہر وقت ٹانگ اڑانے کی کوشش کرتے ہیں جو دوسرے لوگوں کی پریشانی کا سبب بنتا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ دوسرے لوگوں کی زندگیوں کے منفی پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کر کے اُن کو سماج میں بلاوجہ کمتر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے دوسرے لوگ احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں اور اُنکے دماغ پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ ذہنی مریض بن کر کوئی بھی غلط قدم اٹھانے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہمارے سماج میں خودکشی کے بڑھتے رجحان کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ بلا وجہ دوسرے لوگوں کی نجی زندگیوں میں بے جا مداخلت کر کے انکو ذہنی پریشانی میں مبتلا کرتے ہیں جسکی وجہ سے وہ کبھی کبھار تنگ آکر خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم لوگوں کی رازداری کا احترام کر کے اُن سے بے مطلب سوال پوچھنے سے گریز کرے جو انکی نجی زندگیوں سے تعلق رکھتے ہو۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دوسرے لوگوں سے نہ پوچھے کہ انکی آمدنی کیا ہے، اُنہوں نے کیوں پرانے کپڑے یا پرانے جوتے پہنے ہے، وہ زیادہ باہر کیوں نہیں جاتے ہیں، وہ کم بات کیوں کرتے ہیں، کیوں اُنہوں نے کسی شاندار جگہ پہ کھانا نہیں کھایا، انکی عمر کیا ہے، اُنہوں نے کیوں ابھی تک شادی نہیں کی یا ابھی تک صاحبِ اولاد کیوں نہیں ہوئے، وہ چھوٹے قد کے کیوں ہے یا لمبے قد کے کیوں نہیں ہے، انکو اپنے شریک حیات یا سسرال والوں سے کیسے تعلقات ہے، وہ کسی امتحان میں ناکام کیوں ہوئے، اُنکے گھریلو فساد کی کیا وجہ ہے، گھروالوں سے علحیدہ اختیار کیوں کی ہے، اُنھیں نوکری کیوں نہیں ملی یا نوکری کیوں چھوڑدی وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ ایسے فضول اور بے مطلب سوالات سے اجتناب کرے۔ جب تک کوئی انسان ان سب معاملات کو ہمارے ساتھ شئیر کرنے کا خود خواہش مند نہ ہو ہمارا ان سب چیزوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہیں نا ہی مذہبی اور اخلاقی طور پر ہمیں یہ زیب دیتا ہے کہ ہم کسی دوسرے انسان کے ان معاملات میں زبردستی مداخلت کرے۔ ہمیں چاہئے کہ دوسروں کی زندگیوں میں غیر ضروری مداخلت کرکے انکو پریشان کرنے کے بجائے ہم اپنی زندگی پر دھیان دے اور اپنی زندگی کو سنوارنے کی کوشش کرے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم خود بھی خوش رہے اور دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں غیرضروری مداخلت کر کے انکی زندگی جہنم نہ بنائے بلکہ اسپیس دے کر انکو بھی خوش رہنے کا موقع دے۔
عابد حسین راتھر
ای میل: [email protected]
موبائیل نمبر : 7006569430