تحریر:۔۔۔۔۔۔ ہمیرہ فاروق
لفظ منافق اگر دیکھا جاۓ تو یہ "نفق ” سے نکلا ہے جسکا معنی ہے ایک طرف سے نکل کر دوسری طرف جانا ۔ کیونکہ منافق لوگ کبھی بھی ایک جگہ پہ نہیں بیٹھ سکتے ,یہ کبھی ادھر جاتے ہیں کبھی ادھر ۔ یہ انسان کو کبھی بھی مکمل نقطہ نظر نہیں دیتے اور نہ ہی یہ لوگ زندگی میں کسی کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں ۔منافق لوگ محبت سے خالی ہوتے ہیں ۔ انکا دعویٰ صرف زبان تک محدود رہتا ہے لیکن دل میں کوئی ہمدردی نہیں ہوتی ۔ انکا مقصد صرف دوسروں سے مفاد حاصل کرنے کا ہوتا ہے اسلئے یہ تھوڑی دیر کے لیے ساتھ رہتے ہیں لیکن مفاد حاصل کرنے کے بعد پیٹھ پھیر لیتے ہیں ۔
منافق کے ساتھ کبھی رشتہ برقرار نہیں رہ سکتا ہے بلکہ ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ مفاد اور خودغرضی سے جڑے ہوئے رشتے کبھی قائم و دائم نہیں رہتے۔ منافق کبھی کوئی اچھا کام کرے بھی تو صرف اور صرف لوگوں کی خوشامد کیلئے نہ کہ رضائے الٰہی کے لیے ۔پھر منافق لوگ ہمیشہ اپنی برتری چاہتے ہیں اور دوسروں کی کامیابیوں سے جلتے ہیں ۔جیسا کہ قرآن پاک میں عبداللہ بن ابی کے حوالے سے ،جو منافقوں کا سردار تھا، واضح دلیل کی ملتی ہے کہ کیسے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے انکی تعریفیں بیان کرتا تھا جبکہ دل ہی دل میں بغض و کینہ کی آگ میں جلتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازشیں کرتا رہتا تھا ۔ جب اُسے لگتا کہ اسلام تھوڈا سا غالب آنے لگا تو وہ اسی جانب ہولیتا اور جب مسلمان کمزور پڑھنے لگتے تو وہ اسلام سے منہ موڈ لیتا تھا حتیٰ کہ جنگ بدر میں بھی اس نے اپنی منافقت اور غداری کا ثبوت دیا ۔
منافق کبھی بھی اسلام اور انسانیت کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے کیونکہ جو انکے حق میں بات کرتے ہیں یہ بس انہی کے بن جاتے ہیں ۔ یہ لوگ دوسروں کی غلطیوں کو چھپانے کی بجائے انہیں اچھالتے ہیں کیونکہ انکے دلوں میں جل رہی حسد کی آگ نے انہیں سکون سے محروم کر دیا ہوتا ہے۔
شریعتِ اسلامی کی نظر میں سارے انسان تین گروہوں،ایمان والے،کافر اور منافق،میں تقسیم ہیں جبکہ منافقین کی مزید دو اقسام ہیں۔ایک جو بظاہر اسلام کے راستے پر نظر آتا ہے لیکن اصل میں اسلام کے راستے میں مشکلات پیدا کر رہا ہوتا ہے ا ور مسلمانوں کے تئیں بغض و عداوت رکھتا ہے ۔ یہ لوگ بہت خطرناک ہوتے ہیں جیسے ہم نے عبد اللہ بن ابی۔وہ ایسا دشمنِ دین تھا جس نے رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دھوکہ دہی کی کیونکہ وہ دراصل بادشاہت چاہتا تھا۔ مدینہ والوں نے اُسے اپنا بادشاہ مقرر کیا تھا لیکن اللہ نے وہ منصب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا جو سارے امور و احکام صحیح اور احسن طریقے سے انجام دیتے ہوئے مساوات کا معاملہ کرسکتے تھے اور جنہوں نے پورے عالم کو ظُلمت سے نور کی راہ دکھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے دل دین اسلام کے نور سے منور کئے اور عرب کی کایا پلٹ کی۔ یہ سب کچھ دیکھ کر عبد اللہ بن ابی سے رہا نہیں گیا اور وہ ہر طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سازشیں بنا نے میں لگ گیا یہاں تک کہ انکو ،نعوذ باللہ، قتل کرنے کی سازشوں میں لگا رہا ۔عبداللہ بن ابی نے غزوہ بنو مصطلقہ کے موقعے پر اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ پر تہمت لگائی جبکہ اللہ نے عائشہ رضی اللہ عنہ کی برأت نازل فرما کر منافق کو ذلیل و خوار کر دیا۔
سورہ منافقون میں منافق کی شناخت واضح ہے۔ایک منافق خالق کا وفادار ہوسکتا ہے اور نہ ہی مخلوق کا۔ٓآخر جو انسان اپنے خالقِ یکتا کا نہیں بن سکتا وہ اسکی مخلوق کا کیسے ہوسکتا ہے؟پھر انکے خصائل خود انکے اور انکے فتنہ کا شکار ہونے والوں کیلئے بڑے خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ یہ لوگ بدگمانی ،حسد اور دوسروں کی عیب چینی کے عیب پالتے ہیں اور بلا تحقیق غلط باتوں کو فروغ دیتے ہوئے لوگوں کو بدگمان کرتے پھرتے ہیں ۔ قرآن پاک میں آیا ہے کہ جب جھوٹے لوگوں کے پاس کوئی بات آتی ہے تو وہ اسکو بلا تحقیق پھیلاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی کچھ نشانیاں بیان فرمائی ہیں:
1۔جب بولتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں ۔
2۔جب وعدہ کرتے ہیں تو اسکی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔
3۔جب انکے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتے ہیں ۔
4۔جب کسی سے جھگڑا کرتا ہے تو گالیاں دیتا ہے۔ (بخاری)
اگر یہ تمام صفات کسی میں پائی جائیں تو وہ مکمل منافق ہے اور اگر کسی شخص میں ان میں سے کوئی ایک نشانی پائی جائے تو اس میں نفاق ہے اور اسکے لئے خود کی اصلاح کرنا بہت ضروری ہے.
قرآن پاک میں آیا ہے کہ منافقین کو نفاق کی سزا فوراََ نہیں ملتی بلکہ انہیں ڈھیل دی جاتی ہے یہاں تک کہ پوری طرٖح نفاق کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر منافقین کیلئے بڑی سخت سزا بتائی گئی ہے۔قرآن پاک میں آیا ہے کہ منافق لوگ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہونگے (سورہ النساء)کیونکہ یہ ایسے چھُپے ہوئے دشمن ہوتے ہیں جو انسان کو سب سے زیادہ نقصان پہچاتے ہیں۔اللہ تعالی کو کافر کے مقابلے میں منافق زیادہ ناپسند ہےکیونکہ کافر سرِعام اپنی دشمنی کا اعلان کرتا ہے جبکہ منافق اسکے برعکس اندر ہی اندر شیطانی چالیں چل رہا ہوتا ہے اور یوں دوگناہوں کا مرتکب ہورہا ہوتا ہے۔
باقی دشمنوں کے مقابلے میں منافق سے مقابلہ مشکل ہوتا ہے۔ قیامت کے روز جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کر رہے ہوں گے اور سبھی مسلمان یہ اُمید لگائے ہونگے کہ اُنکی شفاعت ہوگی اور اُنہیں عذاب سے نجات ملے گی لیکن سورتہ توبہ میں ہے کہ منافقین اس اُمید سے محروم ہیں۔ اللہ تعالٰی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہیں کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) خواہ آپ ان (منافقین)کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں کوئی فرق نہیں پڑھنے والا نہیں ہے۔اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) انکے لئے 70 مرتبہ بھی استغفار کریں گے تب بھی انکو نہیں بخشا جائے گا ۔ا ور انکے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر یہ لوگ مر جائیں گے تو انکی نمازِ جنازہ کبھی نہیں پڑھنی چاہیے اور نہ ہی انکی قبر پر کھڑا ہوناچاہیے۔ یہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ منافقین کے لئے دعا نہ کریں، عام لوگوں کی بات ہی نہیں ہے کہ وہ منافقین کے لئے دعا کریں۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ،جو دونوں جہاں کیلۓ رحمت للعالمین تھے اور جن کی طبیعت میں رحمت و شفقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، فرمایا ’’ اگر مجھے یہ اُمید ہوتی کہ منافقین کی مغفرت ہوجائے گی تو میں 70مرتبہ سے زیادہ انکی استغفار کرتا‘‘ ۔لیکن اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے روک دیا کیونکہ منافقین سے زیادہ کسی نے اسلام کو نقصان نہیں پہنچایا ۔
جب جب منافقین کو لگتا کہ اب اُنکا راز ایمان والوں کے سامنے فاش ہونے کو ہے تو وہ تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قسمیں کھا کھا کر یقین دلاتے تھے کہ وہ ایمان والے ہیں۔منافقین کیلئے طے سزا اور عذاب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں خود کا جائزہ لینا چاہیئے کہ کہیں ہم میں ایسی کوئی صفت موجود تو نہیں ہے کہ جسے حدیث میں منافقت کی نشانہ بتایا گیا ہے۔منافقت سے اجتناب اور منافقوں کی صحبت سے کنارہ کرنا چاہیئے بلکہ منافق سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیئے کیونکہ خود صحابہ کرام اس حد تک منافقت سے ڈرتے تھے کہ بعض اوقات ااس وہم میں مبتلا ہوتے کہ کہیں’’ ہم بھی منافقین میں شمار تو نہیں ہیں‘‘۔حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ،جنکے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوتے،نے منافقین کی فہرست رکھنے والے جنزلہ رضی اللہ عنہ کو قسم دیکر اپنے بارے میں دریافت کیا کہ کہیں وہ اس فہرست میں شامل تو نہیں ہیں؟۔منافقت کے حوالے سے بڑا حساس ہونے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ ہم بلا وجہ کسی مسلمان کو منافق یا کافر کہہ کر نہ پکاریں کیونکہ اگر وہ واقعی منافق یا کافر نہ ہوا تو،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق، یہ حُکم لوٹ کر تہمت لگانے والے پہ لگتا ہے۔
ادارے کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا لازمی نہیں ہے