وادی بھر میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھر مار قائم ہوچکی ہیں۔ شمال وجنوب میں نجی ہسپتالوں اور نرسنگ ہوموں کی جانب سے مریضوں کو دو دو ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ بڑی ڈھٹائی کیساتھ جاری ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی کمی اور یہاں بنیادی سہولیات کے فقدان کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے بعض مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر نے مریضوں کی زندگیوں کیساتھ کھیلنا معمول کی بات سمجھی ہے۔ یہی وجہ سے کہ آئے روز نجی ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی من مانیاں اور یہاں مریضوں کیساتھ ہورہی زیادتیوں کے حوالے سے شکایات موصول ہورہی ہیں۔یہاں معمولی سے بلڈ ٹیسٹ کیلئے ہزاروں کی رقم بطور ایڈوانس جمع کروانی پڑتی ہے۔ معمولی آپریشن کیلئے تیس ہزار سے لیکر پچاس ہزار روپے تک ادا کرنا یہاں معمول کی بات ہے۔ اگہ چہ کئی بار عوامی حلقوں نے اعلیٰ حکام کو معاملے کا نوٹس لینے کی اپیل کی تاہم محض سطحی اقدامات اُٹھاکر معاملے کو چند روز بعد ہی گول کیا گیا۔ غور طلب بات ہے کہ یہاں حاملہ خواتین کی جراحی کا ایک رجحان جڑ پکڑنے لگا ہے ۔ ایک محتاط تخمینہ کے مطابق ایک پرائیویٹ ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر آٹھ سے دس حاملہ خواتین کی جراحیاں عمل میں لائی جاتی ہیں جو کہ ان طبی اداروں کیلئے کسی سونے کی مرغی سے کم نہیں! اس طرح کی جراحی کیلئے ان اداروں میں چالیس سے پینتالیس ہزار کی رقم جمع کرنی پڑتی ہے، اور اس کے بعد مریضہ کیلئے ادویات کا خرچہ علیحدہ سے شمار ہوتا ہے۔ اگر چہ اس طرح کی جراحی انجام دینے کیلئے یہاں موجود ڈاکٹروں کی جانب سے آج تک کوئی بھی تشویش ظاہر نہیں کی گئی تاہم چند ماہ قبل ڈاکٹر نثار الحسن کی قیادت والی ڈاکٹرس ایسو سی ایشن آف کشمیر کی جانب سے چونکا دینے والے انکشافات سامنے آگئے۔ ایسو سی ایشن کے بقول زچہ بچہ سے متعلق جراحی ماں اور بچے دونوں کیلئے مہلک ہے جس سے ہر حال میں احتراز کیا جانا چاہیے۔ ایسو سی ایشن کی جانب سے اس خلاصہ کے بعد عوامی حلقوں میں سخت تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے جنہوں نے طبی ماہرین پر زور دیتے ہوئے معاملے سے متعلق مکمل تفصیلات سامنے لانے پر زور دیا ہے۔ بدقسمتی سے اس مقدس پیشہ کی آڑ میں چند ایسے خود غرض اور مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر داخل ہوگئے ہیں جنہوں نے اس پورے شعبہ کی شبیہہ بگاڑ کررکھ دی ہے۔ ایک مریض بیماری کے دوران ڈاکٹر پر ہی بھروسہ کرکے اس کی دی ہوئی ہدایات پر عمل پیرا ہوتا ہے کیونکہ وہ پُراُمید ہوتا ہے کہ وہ ربّ کے فضل و کرم کے بعد ڈاکٹر کے صلاح و مشورہ سے ہی صحت یاب ہوسکتا ہے۔ مریض اس عرصے کے دوران ڈاکٹر کو اپنا قریبی ساتھی اور خیرخواہ تصور کرتا ہے لیکن اس مقدس شعبہ میں جو خودغرض عناصر داخل ہوگئے ہیں انہوں نے ڈاکٹر اور مریض کے رشتے کو انتہائی کمزور کرکے رکھ دیا ہے۔انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ پرائیویٹ ہسپتالوں کی اس لوٹ اور من مانی پر قابو پانے کیلئے کوئی ٹھوس پالیسی تشکیل دے اور مریضوں کی زندگیوں کیساتھ کھیلنے والے عناصر کو جلد از جلد بے نقاب کرے۔