بڈگام/15جولائی (صوفی میڈیا سروسز) وادی کشمیر میں عظیم صوفی ، مصنف اور نعت گو شاعر حضرت میر سید عزیزاللہ حقانیؒ کا عرس شریف نہایت ہی عقیدت کے ساتھ منایا گیا اس سلسلے میں خانقاہ حقانیہ سویہ بگ بڈگام میں ایک مجلس منعقد ہوئی جس میں تلاوت کلام پاک ختمات المعظمات دودو سلام کا اہتمام ہوا جس کا اختتام دعایہ کلمات کے ساتھ ہوا۔رات بھر محفل سماع کا انعقاد ہوا۔ روایتی لنگر کا انتظام بھی کیا گیا۔ سینکڑوں مریدین محبین متعلقین اور متوسلین نے شرکت کی ۔اس موقعے پر انکے علمی اور ادبی کارناموں کو یاد کیا گیا۔حقانی میموریل ٹرسٹ جموں و کشمیر کے سرپرست اعلیٰ و سجادہ نشین خانقاہ حقانیہ جناب سید حمید اللہ حقانی اور جنرل سکریٹری بشیر احمد ڈار نے حضرت میر سید عزیزاللہ حقانیؒ کو گلہاۓ عقیدت پیش کرتے ہوۓ کہا کہ ان کی ہمہ جہت شخصیت کی مثل یہاں کی تاریخ میں ملنا دشوار ہے وہ عظیم عالم دین ، مصنف، مورخ ہونے کے ساتھ ساتھ برگذیدہ صوفی تھے۔ کشمیری زبان و ادب کے مورخ عبدل احد آزاد کا ماننا ہے کہ کشمیری زبان نے غزل میں محمود گامی کے بعد اگر کوئی مطلق العنان شاعر پیدا کیا ہے تو وہ عزیز اللہ حقانی ہے ان کی غزلیں اور مثنویاں فن کے بہترین نمونے گردانے جاتے ہیں۔نعت گوٸ میں انکا فن بے مثل ہے ۔انکے نعوت ہاۓ نبیﷺ خصوصاً گو جہان تازہ بہ رخسار رسول عربی ﷺ عالمی شاہکاروں میں شامل کرنے کے لاٸق ہے ۔ کشمیری زبان میں نعت گوٸ کی صنف میں حقانیؒ صاحب سب سے عظیم شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں انہوں نے کشمیری زبان کے قدآور شاعراور نقاد پروفیسررحمان راہی کی”نعت نبی”ﷺ نظم کا حوالہ دے کر کہا کہ پروفیسر راہی نے حقانیؒ صاحب کی اسی عظمت کو پیش نظر رکھ کر نظم میں یہ رقم فرمایا کہ” گر قبول افتد ثوابم نظر حقانی کنم”۔ پروفیسر راہی کی یہ نظم حقانیؒ صاحب کی روحانی عظمت اور شاعرانہ بلند مقام کا بین ثبوت فراہم کرتی ہے انہوں نے مزید کہا کہ بحثیت نعت گو شاعر حقانیؒ صاحب کو نعت گوٸ کے فن پر بے انتہا قدرت حاصل رہی ہے نعت گوٸ جیسے مقدس اور نازک موضوع کے لیے درکار لوازمات علمی آگاہی، روحانی عظمت و عرفان اور الفاظ کے ذخیرے و انتخاب پر حقانیؒ صاحب کو زبردست دسترس حاصل رہی ہے ان کے نعت شریف پڑھنے یا سننے کے بعد قاری ایک عجیب لذت محسوس کرتا ہے اور اسسے روحانی آگاہی نصیب ہوجاتی ہے اور پھر اس پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ ٹرسٹ کے صدر جناب غلام محمدڈار صاحب نے حضرت حقانی کو گلہاۓ عقیدت پیش کرتے ہوۓ انکی تصانیف ممتاز بے نظیر ، جوہر عشق ، گلدستہ بے نظیر اور روضتہ الشہدا کاحوالہ دے کر اس بات کی وضاحت کی کہ ادب کے یہ شہپارے دراصل تلاش حق اور روحانی سفر کی تماثیل ہیں عام قاری تو ان کو شاعر اور گنایت کے لیے تو پڑھ سکتا ہے مگر یہ ایک سنجیدہ قاری اور راہ حق کے متلاشی کےلیے راہنماٸ کے بہترین زاد راہ ہے انہوں نے سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کو حقانیؒ صاحب کی غیر مطبوعہ تخلیقات بہ شمول دیوان حقانی ، برہان المسلمین ، چندرہ بدن ، گلدستہ بنظیر ، چراغ محفل خصوصاً تاریخ عالم کو منظر عام پر لانے کےلیے بارآور اقدام اٹھانے کا مطالبہ کیا ۔