وادی کشمیر میں گزشتہ چند دنوں سے موسم میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے جس کی وجہ سے صبح اور شام کے اوقات میں ٹھنڈ نے اپنی دستک دے ڈالی ہے۔ اکتوبر کا مہینہ شروع ہوگیا ہے یعنی موسم خزان جب کہ چناروں کے پتے سرخی مائل ہوجاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے چنار کے درخت سونے کے بن گئے ہیں۔ ان درختوںسے گرنے والے پتے جب زمین پر بکھر جاتے ہیں اور لوگ ان پر چلتے ہیں تو ایک خوشگوار احساس جسم میں مؤجزن ہوجاتا ہے۔بیشتر سیاح اس موسم سے لطف اندوز ہونے کے لئے خزان میں ہی کشمیر کی سیرپر آتے ہیں اور چناروں کے سنہرے پتوں کی چرمراہٹ سے کافی خوش ہوجاتے ہیں۔یہ ایک رومانی منظر پیش کرتے ہیں۔دوسرے درختوں سے بھی پتے گر جاتے ہیں اور جوں جوں دن گذرتے جاتے ہیں درخت بے لباس ہوتے جاتے ہیں اور کل تک جہاں چاروں اور ہریالی ہی ہر یالی نظر آتی تھی خزان کے جاتے جاتے وہاں زردی چھا جاتی ہے اور باغوں ،کوہساروں ،چراگاہوں وغیرہ کا حْسن ماند پڑنے لگتا ہے۔ لیکن اس میں بھی ایک خوبصورتی ہے۔ اس میں بھی دل کو لبھانے والی کشش ہوتی ہے۔جو جھرنے اور آبشار کل تک اٹھکھیلیاں کھاتے اور شور مچاتے ہوے گرتے ہیں آج بالکل خاموشی سے آگے بڑھتے ہیں اس خاموشی میں بھی ایک سوز ہے جس سے شاعر لوگ اپنی شاعری کا اثاثہ سمجھ کراپنے بیان میں اس کا خوب خوب استعمال کرتے ہیں۔غرض کائنات اس موسم میں بھی انتہائی دلکش خوبصورت ہوتی ہے ۔ سرما ہمیشہ سے یہاں لوگوں کے لئے مصائب و پریشانی لے کر آتا ہے۔اسلئے حکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہئے اور ابھی سے سرما سے نمٹنے کے لئے تیاریاں کرنی چاہئے تاکہ لوگوں کو کم سے کم مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے۔بجلی ،سڑکیں ،پانی کی تمام مشکلات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ سرینگر جموں شاہراہ کو ٹریفک کے لئے کھلا رکھنے کے لئے ابھی سے کوششیں شروع کی جانی چاہئے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سرما کے دوران شاہراہ کئی کئی دنوں تک گاڑیوں کی آمد و رفت کے لئے بند رہتی ہیں۔اگر حکومت واقعی اس بارے میں سنجیدہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کے لئے باقی ملک سے سال کے سال آمد ورفت بحال رکھنی چاہئے تو اسے فوری طور اُدھم پور بارہمولہ کے درمیان ریل سروس کو شروع کرنے کے لئے ریلویز سے وابستہ عملے کو اپنے کام میں سرعت لانے کی ہدایت کرنی چاہئے تاکہ سرینگر جموں شاہراہ پر ٹریفک کا دبائو کم ہوسکے اور زیادہ سے زیادہ لوگ ریل میں سفر کرسکیں۔اس کے ساتھ ہی عام لوگوں کی یہ شکایت ہوتی ہے کہ باہر سے جتنے بھی لوگ یہاں آتے ہیں ان میں بعض جرایم پیشہ ہوتے ہیں ۔اب ان کی شناخت کیسے کی جائے گی اس سلسلے میں پولیس اور دیگر ایجنسیوں کو اقدامات کرنے ہونگے اور ان ہی لوگوں کو یہاں آنے کی اجازت دی جانی چاہئے جو قانون کی پاسداری کرتے ہوں اور جن کا ماضی اور حال بے داغ ہو۔اس سے سماج میں جرائم کا پوری طرح قلع قمع ہوسکتا ہے۔حکومت کو ایسے لوگوں کے خلاف بھی سخت کاروائی کرنی چاہئے جو منشیات کا دھندا کرتے ہوں یا اس کا استعمال کرتے ہوں۔اس سے ہماری نوجوان نسل کا مستقبل تابناک بن سکتاہے اور سماج میں منشیات کا استعمال ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔