سرینگر۔:وادی کشمیر میں جہاں سیب کی کاشت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے تو وہیں کسان روایتی پھلوں سے ہٹ کر کیوی جیسے غیر روایتی پھل کی کاشت پر بھی توجہ مرکوز کررہے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک وادی میں کیوی کی کاشت شوقیہ طور کی جاتی تھی تاہم اب تجارتی سطح پر بھی اس پھل کی کاشت ممکن ہو پارہی ہے۔شمالی کشمیر کے قصبہ سوپور کے کسان بشیر احمد وار نے وادی کشمیر میں پہلی بار تجارتی سطح پر کیوی کی کاشت ممکن بنائی اور تین سال کی انتھک محنت کے بعد رواں برس اُسے کیوی کا پہلا پھل ملا۔ ملاپ نیوز نیٹ ورک کے نمائندے زبیرقریشی کے ساتھ بات کرتے ہوئے بشیر احمد وار نے کہا کہ وادی کشمیر کی آب و ہوا اس پھل کے لئے موزون ہے۔ ” میں دیکھنا چاہتا تھا کہ اگر کیوی کی کاشت ہماچل پردیش میں کی جاسکتی ہے تو کشمیر میں کیوں نہیں جبکہ دونوں جگہوں کی آب و ہوا تقریباً ایک جیسی ہی ہے۔” یاد رہے کہ شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کشمیر نے کیوی کی کاشت کے لئے کچھ تجرباتی باغات تیار کئے گئے ہیں۔ یونیورسٹی کے شعبہ فروٹ سائنس کی ایسوسیٹ پروفیسر ڈاکٹر نوشین نذیر کے مطابق یونیورسٹی مرکزی حکومت کے 2022 کے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے وژن پر کام کر رہی ہے۔ ” ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ بشیر احمد وار نے تجارتی سطح پر کیوی کی کاشت ممکن بنائی۔ یونیورسٹی کی طرف سے انہیں جتنی مدد درکار تھیں وہ مہیا رکھی گئی تھی۔ ” انہوں نے مزید کہا کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ جو کام ہم تجرباتی سطح پر کر رہے ہیں وہ اب زمینی سطح پر مکمل ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق کیوی 25 سے 30 روپے میں فروخت ہوتا ہے، جب کہ کشمیری سیب 5 سے 8 روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے وادی میں کیوی کی کاشت میں بہت زیادہ صلاحیت ہے کہ یہ کسانوں کو دوگناہ فائدہ پہنچائے ایسے میں بشیر احمد وار کی یہ کوشش دیگر کسانوں کے لئے ایک مشعل راہ کے طور پر سامنے آئی ہے تاہم بشیر احمد کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کی طرف سے کیوی کی کاشت کے لئے کچھ مراعات واگزر کی جاتی تو اس سے کسانوں کو اس کی کاشت میں کافی مدد ملتی۔” کسانوں کو کیوی کی کاشت کی طرف راغب کرنے کے لئے مرکزی اور یوٹی سرکار کو اقدام کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ابھی تک اس کی کاشت کے لئے کسی بھی قسم کی مراعات دستیاب نہیں ہے۔