از قلم۔ طارق اعظم کشمیری
اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ دورِ ھذا میں ترقی کے رنگا رنگ مناظروں نے ہر آنکھ کو دھنک کر رکھ دیا ہے۔ ایک سے بڑ کر ایک آلات، عمارتیں اور مشینے غرض وہ چیزیں وجود میں لای گی جن کا وہم و گمان تک نہ تھا۔ مہینوں کا ہفتوں میں اور ہفتوں کا چند لمحاتوں میں انجام ہوجاتا ہے۔ مشرق میں گھر کے کمرے میں بیٹھا فرد مغرب میں دوسرے فرد سے گپ شپ کررہا ہے۔ لوہے میں سکون سے بیٹھ کر ہزار افراد ہوا میں سفر کر رہے ہیں۔ لیک انسان ترقی کے چسکے لے لے کر مادیت کا غلام بن گیا۔ احساسات ، ضمیر کچل ڈالے نے آلاتوں نے۔ معاشرت سلجھانے کی کوی فکر نا کوی غم نظر آرہا ہے۔ سب کے سب آگے جانے کی دوڈ میں لگیں ہے۔ مال و زر جمع کرنے میں مگن نہ دن کی خبر اور نا ہی شام کی۔بس منزل وار چار دن کیلے مکان بنانے میں کمر بستہ ہے۔جس کی فکر میں آج کا انسان احساس ہاتھ دوھ بیٹھا ہے۔ نا اولادوں کی تربیت کیلے وقت ، نہ عزیز و اقارب کی حال پرسی اور نا ہی سماج میں پڑوس، یتیم، غریب ، نادار ، مفلس اور مجبوٗر انسان کی ان کلفتوں کا احساس۔ ہر ایک اپنی دنیا کو جنت جیسا بنانے میں کوی قصر نہیں چھوڑ رہا ہے۔ اپنے بیوی بال بچوں کو خوش رکھنے کیلے ہمیں آنکھ کھولنے سے لیکر آنکھ بند ہونے تک خیال رہتا ہے۔ موسم کے مطابق پوشاک ، صحت کیلے صحت مند پھل پھول اور سیر و تفریح کیلے منتخب تواریخ۔ اتنی ہی ذمہ داری سمجھ لی ہے، مادیت کے انسان نما غلام نے۔ جب کہ اسلامی معاشرت میں ہر ایک کی ذمہ داریاں اظھر من شمش کی طرح عیاں ہے۔کہ ایک انسان کو اپنے پڑوس،عزیز و اقارب اور سماج میں سفید پوش انسانوں کی کیا ذمہ داریاں ہے۔ مگر افوس صد افسوس ہم سبھی اپنی اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش بیٹھے ہو ہیں۔ مسجد و خانقاہ میں ایک وقت کی ہماری حاضری نا ہوجا تو عجیب عجیب سا محسوس ہورہا ہے۔لیکن جب سامنے مکان میں عرصے سے علالت میں پڑا بیمار اسکی خبر پرسی نہ کر سکھے، تب یہ ضمیر کیوں نہیں جھنجوڑتا ہے۔ اور جب ایک یتیم پھٹی چپل اور پرانے کپڑوں میں اپنے بے بس اور مجبور ہاتھ پیھلاتا ہے تب ہمارے ضمیر کو جنبش تک کیوں نہیں ہوتی۔ سر پر ہاتھ رکھنے سے ذمہ داری کا حق ادا نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ مفکرانہ انداز میں حال پرسان بننا ہے ایک مجبور اور ایک یتیم انسان کا۔ ہر ن دن کوی نا کوی ایسی کہانی سننے اور دیکھنے کو ملتی ہے۔ کہ قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری ہر سانس ہے۔ رونگٹے کھڑا ہوجاتے۔ آنکھیں دھنگ ، زبان قاصر اور بدن دہشت کھاتا ہے۔ کہ کیا اتنے گر چکے ہیں ہم نام نہاد مسلمان ۔ ہم قرن میں ایک ایسی روداد سننے کو ملی کہ میرا سنگ جیسا دل تک ٹوٹ گیا اور خشک ذدہ چشموں سے اشک بہہ چلنے لگے۔ وہ ایک یتیم بچی تھی جسکا غریب باپ رحلت کرچکا تھا۔ ماں اور بھای کے ساتھ یہ بیٹی ایک کچے پرانے مکان میں کلفت کے لیل و نہار گزار رہی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ غربت کی چکی نے اسے تھکا دیا تھا۔ کیوں کہ کمای کا ذریعہ جو تھا۔ وہ بھای شدید مرض میں مبتلا ہوا تھا۔ مفسلی دایں بایں رقص کررہی تھی۔ اس اینٹ گاری کی جونھپڑی میں ۔۔۔۔۔۔ نا کوی رشتہ دار نا کوی پڑسی ان کے دکھ کا شریک بننے کا نام تک نہیں لیتا تھا۔ مذہبی رہنما، سیاسی جماعت اور صحافت کی ٹولی اس درد پر کوی روشنی کوی تبصرہ نہیں کرتے تھے ۔ اور یہ جماعتیں کرتے بھی کیا انھیں بس عہد و تخت کی پڑی ہے۔ معاشرے میں کتنے احساس روز بے موت مرجاتے ہیں۔ اسکی طرف غلطی سے بھی ظن و گوش نہیں کرسکھتے ہیں یہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ خیر جب اس بیچاری ماسوم سی بیٹی کے محتاج ہاتھ ٹھکرا گ۔ اسکے درد کا کوی فردِ بشر نے ہم درد نا بنا۔ وہ اپنی ماں کے بے بس چہرے کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اور اپنے بھای کے حال کو دیکھنا اسکے میزانِ برداشت سے بھاری تھا۔ ان غموں کے پہاڑ اور سماج کی لاپروای نے اس چھوٹی سی بیٹی کو اپنے باپ کے پاس واپس جانے پر مجبور کردیا۔ وہ ایک پُل سے چھلانگ لگا کر موتِ دریا میں دم توڑ گ۔ لوگوں کا ہجوم دریا کے کناروں پر آہ اور افسوس کرنے لگے۔ رونے دوھنے لگے دعائيں کرنے لگے ۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ کیا فادہ اس رحم کھانے پر مزہ تو تب جب گرتے ہوں کو تھام لیا جاتا۔ تاکہ یہ نوبت نا آتی۔ اب ساری جماعتیں میڈیا سمیت ہم دردی کے افسانے سنانے لگے۔ امداد کی پرچاری اور یہ بے وقت کی یہ یاری کوی معنی نہیں رکھتی ہے۔ اس سانحہ کے ذمہ دار ہم سب ہے۔کل خالقِ احسن اسکی پرستش فرمایں گیں۔کہ اگر آپکو میں نے قوت دی تھی مال دیا تھا کیوں نہیں میری کمزور مخلوق پر رحم کھایا۔ کیا پیغمبرِ آخر نے یتیوں اور بسوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے نہیں سکھایا تھا۔ جب کہ قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ یتیوں اور سفید پوشوں کے ساتھ کیا برتا کیا جا۔ ہمارے پاس ہر ایک چیز کی تعلیمات تھی۔ لیکن دنیا کا پجاری حرس و ہوس کا بکھاری خاک اپنے معاشرے کی فکر کرے گا۔ اسی لیے اپنے سماج میں ایسے اور واقعات سے بچبے کیلے ہمیں غفلت کی نید سے بیدار ہونا ہے۔اور اپنے پڑوسیوں، عزیز و اقاربوں اور حق داروں کی بھر پور فکر کرنی ہوگی۔چاہیے قدمی درہمی سخنی کیوں ہی نا ہو لیکن کرنی ہی کرنی ہوگی۔
از قلم۔ طارق اعظم کشمیری
ساکنہ ۔ہردوشورہ ٹنگمرگ