وادی کشمیر کیساتھ ساتھ خطہ چناب اور پیر پنچال کے آر پار گزشتہ دنوںسے رُک رُک کر بارشیں ہورہی ہیں جس کے نتیجہ میں ندی نالوں اور آبگاہوں کی سطح آب میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے قبل از وقت ہی عوام کو موسمی صورتحال سے متعلق آگاہ کیا گیا تھا کہ مان سون اور مغربی ڈسٹربنس کی وجہ سے وادی کشمیر میں درمیانہ تا بھاری بارشیں ہونے کی توقع ہے۔ اس سلسلے میں محکمہ موسمیات نے وادی بھر کے کسانوں اور باغ مالکان کیلئے علیحدہ ایڈوائزی بھی جاری کی تھی۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران جاری بارشوں کی وجہ سے دریائے جہلم اور دیگر ندی نالوں میں پانی کی سطح میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ادھر دوسری جانب وادی بھر میں رُک رُک کر بارشیں بھی ہورہی ہیں جس کے نتیجہ میں عوامی ذہنوں کے اندر سیلابی صورتحال کے خطرہ نے جنم لینا شروع کردیا ہے۔ محکمہ فلڈ اینڈ کنٹرول کی جانب سے صورتحال پر باریکی کیساتھ نظر رکھی جارہی ہے اور دن میں کئی مرتبہ پانی کی سطح سے متعلق لیول سے لوگوں کو آگاہ بھی کیا جارہا ہے۔ یہاں جنوبی کشمیر کے کئی دیہات میں چھوٹی بڑی ندیوں میں پانی کی سطح میں کافی اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ان ندی نالوں کیساتھ لگنے والے علاقوں میں پانی بھی داخل ہوچکا ہے۔ کہیں کہیں پانی کی بہائو نے چھوٹے بڑے رابطہ پلوں کو بھی اپنے ساتھ بہالیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے عبور و مرور میں سخت مشکلات پیش آگئی ہیں۔اس ساری صورتحال کو دیکھ کر سال 2014کے تباہ کن سیلاب کی یادیں عام لوگوں کے ذہنوں میں پھر سے زندہ ہوگئی ہیں جب پوری وادی کو سیلاب نے اپنی لپیٹ میں لیکر وسیع پیمانے پر تباہی کا ڈنکا بجادیا تھا۔ اُسوقت جنوبی کشمیر سے بہنے والے دریائوں اور ندی نالوں سے بہنے والے قہر انگیز سیلابی پانی نے شہر سرینگر کو پوری طرح تباہ کرکے رکھ دیا تھا۔ شہر میں بہنے والے دریائے جہلم کے دونوں باندھ کئی مقامات پر ڈہہ جانے کی وجہ سے شہر میں سرتا پائوں پانی داخل ہوگیا اور یوں آناً فاناًشہر تباہی کی نذر ہوگیا۔ اُسوقت اگرچہ حکومتی اداروں نے سیلابی خطرے کے اختتام کے بعد شہرکا جائزہ لیا تو یہ بات عیاں ہوگئی کہ دریائے جہلم کے دونوں اطراف میں قائم باندھ کومضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور اگر اس میں مزید لیت و لعل کا مظاہرہ کیا گیا تو مستقبل میں ممکنہ سیلابی خطرے کے نتیجہ میں شہر کو بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اُسوقت کے اعلیٰ حکام نے معاملہ کے تئیں کئی کمیٹیاں تشکیل دی جنہیں دریائے جہلم کے دونوں کناروں کا بھرپور جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ آج اُس معاملہ کو لگ بھگ 9سال کا عرصہ گذرچکا ہے لیکن جو سفارشات اُس وقت حکومت کو دی گئی تھی، اُن پر آج تک عمل نہیں کیا گیا۔سرینگر سے بہنے والے دریائے جہلم کے کنارے کئی مقامات پر کمزور ہیں، معمولی سا بہائو بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اعلیٰ حکام کو اس معاملہ پر سنجیدگی کیساتھ غور و فکر کرنا چاہیے۔ ادھرشہر سرینگر اور مضافات میں رہنے والی آبادی حالیہ بارشوں کے نتیجہ میں پیدا شدہ صورتحال پر انتہائی فکر مند دکھائی دے رہی ہے۔ اگر چہ صوبائی انتظامیہ معاملہ پر کڑی نگاہ بنائے ہوئی ہے تاہم خطرات اپنی جگہ برقرار ہے۔ انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ فوراً سے پیشتر معاملہ کی جانب توجہ کرکے عام لوگوں کے مال و جان کا تحفظ یقینی بنائے اور مطلوب اقدامات اُٹھاکر عوام کی تشویش کو دور کرے۔