وادی کشمیر میں گزشتہ کئی چند برسوں کے دوران عارضہ قلب کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہارٹ اٹیک کے شکار ہوکر اپنی جانیں کھوبیٹھے ہیں جس کی وجہ سے عوامی حلقوں کے اندر تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے۔وادی میں دل کے دورے کے واقعات میں 6 گنا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ تاہم اس طرح کی اموات صرف ہندوستان میں ہی واقع نہیں ہوئیں بلکہ پوری دنیا کا یہی حال ہے۔ یہاں ہم دو ممالک کی صورتحال پر غور کرتے ہیں جن کے لیے ڈیٹا دستیاب ہے۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا۔انگلینڈ اور ویلز میں 2015 کے بعد 2020میں اموات کے واقعات میں تقریباً 13 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جوکہ پچھلے 5 برسوں کی اوسط شرح اموات سے زیادہ ہے۔اطلاعات کے مطابق کورونا کے دوران بڑی تعداد میں لوگوں کی جان گئی لیکن یہ حیران کن ہے کہ 2020 سے بھی زیادہ اموات 2022 میں واقع ہوئیں۔ اس بات کی تحقیق کی جانی چاہئے کہ ان اموات کا تعلق ٹیکہ کاری یا لاک ڈاون سے تو نہیں۔ان دنوں ملک بھر میں تمام عمر کے لوگوں میں دل سے متعلق امراض میں اچانک اضافہ ہوا ہے۔ کسی کو دل کا دورہ پڑ رہا ہے ،تو کسی کا دل اچانک کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ بالکل صحت مند نظر آنے والے لوگ سڑک پر چلتے ہوئے، ڈانس فلور پر رقص کرتے ہوئے اور دفتر میں اپنی میز پر کام کرتے ہوئے بھی لقمہ اجل بن رہے ہیں۔پچھلی بار جب کووڈنے تباہی مچا ہوئی تھی، تو کچھ نوجوان یا صحت مند لوگوں کی ناگہانی موت یقیناً حادثاتی طور پر ہوگی لیکن اس معاملہ میں تحقیق کئے جانے کی ضرورت ہے، تاکہ کسی قسم کی احتیاط برتنے کی ضرورت ہو تو معلوم ہو سکے۔اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی رپورٹ راحت والی ہے کہ 19 سال کی عمر تک کووڈ سے اموات کی شرح 30,000فیصد اور 69سال کی عمر تک تقریباً 0.03 فیصد سے 0.07 فیصد تک ہے۔ کوویڈ انفیکشن کی وجہ سے اموات کی اتنی کم شرح کے پیش نظر، اب ہم ٹیکہ کاری کو بند کر سکتے ہیں اور اپنے وسائل اور وقت کو تحقیق پر صرف کر سکتے ہیں۔سال 2021 کے آغاز سے ہی اچانک اموات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ممبئی میں دل کے دورے کے واقعات میں 6 گنا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں اموات کی تعداد میں اضافے کی دو ممکنہ وجوہات ہیں۔ شروع سے ہی کوویڈ ویکسین اور دل کے امراض کے درمیان کوئی تعلق ہے لیکن یہ نتیجہ اخذ کرنا مناسب نہیں ہے کہ ویکسین ہی اس کی وجہ ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وائرس کی وجہ سے لوگوں کی موت ہوئی لیکن لوگوں میں اس کے بارے میں خوف کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اس کا عوامی زندگی پر کیا اثر پڑا وہ الگ بات ہے لیکن سوال اب بھی باقی ہے کہ 2020 کے مقابلے 2022 میں زیادہ اموات کیوں؟اس کی دو ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک، شدید لاک ڈاؤن اور اس کے نتیجے میں ذریعہ معاش کا بحران، کاروبار کا نقصان، ورزش اور جسمانی مشقت میں کمی، سورج کی روشنی سے دور رہنا اور لوگوں کی صحت پر خوف و ہراس کا اثر۔ دوسرے جلد بازی میں ویکسین تیار کرنا اور اسے لوگوں کو لگانا۔ یہ ویکسین ان لوگوں کو بھی دی گئی جو انفیکشن سے صحت یاب ہو چکے تھے۔ اس کا جواز پیش کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی حقائق نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ کورونا ٹیکہ کاری کے معاملے میں غیر رسمی رضامندی کو بھی نظر انداز کیا گیا۔