تعلیم کسی بھی ترقی یافتہ اور روشن خیال معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ معیاری تعلیم کے حصول اور اس کیلئے سہولیات کی فراہمی کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ہرگزرتے دن کیساتھ تعلیمی دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے اور شرح خواندگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ تعلیمی اداروں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جو معاشرے کی فکری قوت کو بڑھانے اور آنیوالی نسلوں کو محفوظ بنانے کیلئے خوش آئندہ بات ہے۔سرکاری اسکول ہمیشہ غریب عوام کے بچوں کیلئے تعلیم کا بنیادی ذریعہ رہے ہیں۔ جموں کشمیر میں بھی سرکاری اسکولوں میں غریب عوام کو تعلیم فراہم کرنے کے قومی رجحان کی پیروی کرتا ہے۔ ہمارے یہاں نتیجہ خیز تعلیم فراہم کرنے میں پرائیویٹ ادارے سب سے آگے ہیں اور جب ہم نجی اسکولوں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمیں کامیابی کی بہت سی کہانیاں نظر آتی ہیں۔لیکن وہیں دوسری طرف پرائیویٹ اسکول داخلہ اور سالانہ فیس کے معاملات میں استحصالی گڑھ بن چکے ہیں جس کے باعث غریبوں کیلئے ان اداروں میں داخلہ حاصل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگیا ہے۔حکومت تعلیم کی فراہمی کیلئے بہت کچھ کررہی ہے۔ شرح خواندگی میں اضافے کا مشاہدہ اس بات کی دلیل ہے کہ تعلیم کے شعبہ پر اخراجات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ تعلیم تک رسائی کیلئے نئی اسکیمیں متعارف کی گئی ہیں اور جموں کشمیر میں سرکاری اسکولوں اور دیگر اداروں کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کیلئے بھی کافی کام ہورہا ہے۔محکمہ تعلیم نے ریاستی اور مرکزی معاونت والی اسکیموں کے ذریعہ بنیادی طور پر ابتدائی سطح تک لازمی اور مفت تعلیم فراہم کرنے کیلئے ابتدائی تعلیم کیلئے اسکولوں کو کھولنا، انہیں توسیع دینا اور دیگر نوعیت کے اہم اُمور شامل ہیں۔ ادھر دلچسپ بات یہ ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں میں بھی اندراج میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی بنیادی وجہ بھاری اخراجات ہیں جو والدین برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہے۔ایک طر ف نجی اسکولوں کی کثیر تعداد کا مطلب بہتر کارکردگی کیلئے ایک صحت مند مقابلہ ہے جو معاشرے کی تعمیر و ترقی کیلئے ضروری ہے تاہم دوسری طرف ایسے اسکولوں کی بڑھتی تعداد کا مطلب ہے کہ لوگوں کے پاس انتخاب کرنے کیلئے بہت سے اختیارات ہیں۔ ہماری تعلیم بنیادی طور پر سرکاری ملازمت حاصل کرنے پر ہی مرکوز ہے۔ جب ہم اسے حاصل کرتے ہیں تو ہم قدرتی طور پر راحت کی سانس لیتے ہیں اور وقت گزرنے کیساتھ ساتھ چیزوں کو معمولی سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ ایسا تقریباً تمام سرکاری ملازمتوں کیساتھ ہوتا ہے۔ لہٰذا کارکردگی دکھانے کیلئے کسی دبائو کے سرکاری اسکولوں کی کارکردگی پرائیویٹ اسکولوں سے پیچھے رہ جاتی ہے اور گورنمنٹ اسکولوں کے اندراج کو متاثر کرتا ہے حالانکہ پرائیویٹ اسکولوں کے حوالے سے صورتحال بالکل مختلف ہوتی ہیں۔ایسی صورتحال میں طلبا اور اساتذہ کو اپنی ذمہ داریوں کا بھر پور ادراک حاصل کرتے ہوئے قوم کی تعمیر میں اپنا حصہ ادا کرنا چاہیے۔ قوم کے مستقبل کو بہتر سمت دینے سے ہی قوم کا مستقبل محفوظ قرار دیا جاسکتا ہے۔