جموں کشمیر میں گزشتہ ایک ہفتے سے کووڈ وائرس کے معاملات میں ایک مرتبہ پھر اچھال دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سرکار کی جانب سے جاری کووڈ بلیٹن کے مطابق سنیچروار کو جموں کشمیر سے 74افراد وائرس کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔ اس سے قبل کے دنوں میں بھی سو کے قریب افراد پازٹیو قرار پائے ہیں جس کی وجہ سے عوامی حلقوں کے اندر فکر و تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ماضی قریب میں ہی اس تباہ کن عالمی وائرس نے جہاں دنیا کے مختلف ممالک میں موت کا ننگا ناچ کھیلا وہیں جموں کشمیر کے اندر بھی اس وائرس نے بڑے پیمانے پر تباہی مچادی۔ پہلی، دوسری اور تیسری لہر کے دوران اس وائرس نے ہزاروں زندگیاں گل کردیں وہیں لاکھوں کی تعداد میں اس وائرس نے انسانی زندگیوں کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا جس کے نتیجے میں یہاں کے جملہ شفاخانوں کو اپنی معمول کی سرگرمیاں وقتی طور پر معطل کرنی پڑی اور ان طبی اداروں کو کووڈ ہسپتالوں میں تبدیل ہونا پڑا۔ انتظامیہ نے ماضی میں کووڈ کی ان تباہ کاریوں پر باندھ باندھنے کیلئے انتھک اقدامات عمل میں لاکر بڑی حد تک اس بیماری کو کنٹرول کردیا۔خدانخواستہ اگر انتظامیہ کی جانب سے احتیاطی اقدامات کو نافذ نہ کیا گیا ہوتا اور عوام کی جانب سے اُن اقدامات کو تعاون حاصل نہ ہوتا تو جموں کشمیر میں بھی فرانس اور چین کی طرح انسانی زندگیاں ضائع ہوجاتی تاہم حکومتی سطح پر اُٹھائے گئے اقدامات نے بڑے نقصان سے ہمیں محفوظ رکھا جس پر انتظامیہ لائق تحسین ہے۔ بہرحال حالیہ ایام کے دوران کووڈ وائرس میں اضافہ کے پیش نظر وادی بھر کے معروف اور نامور معالجین نے ایڈوائزریاں جاری کرتے ہوئے عوام الناس کو احتیاط سے کام لینے کی تلقین کی ہے۔ صورتحال کا تقاضہ ہے کہ جس طرح عوام الناس نے ماضی قریب میں انتظامیہ اور یہاں کے طبی ماہرین کی ہر ہدایت پر کان دھرتے ہوئے اُن پر عمل کیا ، عین اُسی طرح موجودہ صورتحال اُسی اپروچ کا تقاضہ کرتی ہے۔ادھر عید الاضحی کے پیش نظر وادی بھر کے بازاروں میں گہماگہمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ شہر کے لعل چوک ، مہاراجہ بازار، گونی کھن، لل دید مارکیٹ، آبی گذر، پولو ویو سمیت درجنوں اہم بازاروں میں گزشتہ ایک ہفتے سے خریداروں کا رش دیکھا جاسکتا ہے۔ شہر کی پبلک پارکوں میں بھی سیاحوں کیساتھ ساتھ مقامی لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ہسپتالوں اور دیگر نجی شفا خانوں میں مریضوں اور اُنکے ساتھ آئے تیمارداروں کا بہائو بہت دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسے میں صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے عوام کو چاہیے کہ وہ ہر وہ احتیاطی اقدام بروئے کار لائے جو ماضی میں اختیار کئے گئے تھے۔ سماجی دوری، فیس ماسک اور سینی ٹائزر کا ریگولر استعمال از بس ضروری ہے۔ نیز طبی ماہرین کے مشوروں پر من و عن عمل کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ سب سے پہلے انسانی زندگیوں کا تحفظ لازمی اور ضروری ہے۔ اگر اس میں کسی قسم کی کوتاہی برتی گئی تو عوام کی کوتاہ اندیشی سے وسیع پیمانے پر ایک طوفان بپا ہونے کا خدشہ ہے جس پر پھر قابو پانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن سا معلوم ہوتا ہے۔