محمد طاہر ندوی
جی لاحول ولاقوۃ پڑھئے اور بار بار پڑھئے بلکہ اپنے دوستوں کو پڑھنے پر اصرار بھی کریں کیوں کہ عزت و شرافت بھی ذلت و رسوائی کا شکار ہو گئی ہے۔ ذلت کو عزت کا لباس اور عزت کو ذلت کا لباس پہنا دیا گیا ہے۔ کمینگی کو شرافت کا تاج پہنا دیا گیا ہے۔ اخلاق و مروت کا جنازہ نکال کر معاشرے اور سوسائٹی کو بد زبانی ، بد کلامی ، بد اخلاقی ، بے مروتی ، بد تمیزی ، بے حیائی ، بے شرمی اور بے لگامی کا خوگر بنایا جا رہا ہے اور یہ سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ جو جس قدر ان مذکورہ بالا صفات قبیحہ کا علمبردار ہوگا وہ ہندوتو کے اس زعفرانی معاشرے کا اتنا ہی معزز و مکرم اور قابل احترام شخص سمجھا جائے گا ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے آنے کے بعد ہمارے ملک میں بہت کچھ بدلا، شہروں اور سڑکوں کے نام بدلے، گاؤں اور قصبوں کے نام بھی بدلے ، اشیاء خوردونوش کے دام بدلے، پیٹرول اور ڈیزل کے تاؤ بھی بدلے، لوگوں کے مزاج بدلے ، عوام کی سوچ بھی بدلی اور جیسا کہ ہمارے وزیر اعظم ، جملہ بازی کے شہنشاہ نریندر مودی کے ” یہ دیش اب بدل رہا ہے ” ایسے میں عزت و شرافت کیسے اپنی جگہ کھڑی رہ سکتی تھی اور ذلت و رسوائی کب تک لوگوں کی لعنتیں برداشت کرتی ضروری تھا کہ اسے بھی بدل دیا جائے ، عزت کے سر پر ذلت کا تاج اور ذلت کے سر پر عزت کا تاج رکھ دیا جائے اور یہ کام مودی سرکار کے دور میں بحسن و خوبی اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے۔
گزشتہ دنوں ایسا ہی کچھ دیکھنے کو ملا کہ عزت و شرافت کا تاج ایک ایسے مہنت کے سر رکھ دیا گیا جس پر انتہا درجے کی ذلت و رسوائی اور دنیا جہان کی لعنتیں اور نفرتیں بیک وقت تحفے میں ملی تھیں۔ جس نے سیتاپور میں مائک لے کر مسلم عورتوں کی آبرو ریزی کی دھمکیاں دی ، جس نے ” ناری سمان ” اور” احترام انسانیت ” جیسے اصولوں کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا ۔ جس نے 14 دن سسرالی جیل کی ہوا کھائی ۔ جس پر لوگوں کو دھمکا کر ، ڈرا کر اور پریشان کر کے زمین ہڑپنے اور نا جانے ایسے کئی مقدمات لگے ہوئے ہیں ایسے شخص کے بارے اتر پردیش کی پولیس کہتی ہے کہ ” بجرنگ منی دیش کے معزز مہنت ہیں ایک مذہبی شخصیت ہیں اور سیتا پور میں ان کے بہت سے پیروکار ہیں”۔ اگر ایسے نفرتی، بد زبان اور بدبو دار شخص جس کا وجود ہی پورے معاشرے کو بدبو دار کر دے گا، ایسے مہنت کو معاشرے کا عزت دار مہنت بتانا عزت و شرافت کے حامل لوگوں کے لئے ذلت و رسوائی کا تاج ہی بہتر ہے۔
موجودہ سرکار کے آتے ہی ہر چیز بدل رہی ہے اور ہر چیز کے ناپنے اور پرکھنے کا پیمانہ بھی بدل گیا ہے اس لئے اب عزت و ذلت کا معیار بھی بدل رہا ہے جو جس قدر انسانیت کو شرم سار کرے ، گالیاں دے ، بے ہودگی کی باتیں کرے اسے معاشرے کا آئیڈیل اور اس کے سروں پر عزت و احترام کا سہرا باندھا جا رہا ہے لہذا ایسی سوچ اور ایسی تہذیب کے دلدادوں پر فاتحہ خوانی کیجئے اور زبان پر ہر وقت لا حول ولا قوۃ جاری رکھئے ۔