ریاض فردوسی۔9968012976
حضور ﷺ کی شان اقدس میں گستخانہ کلمہ یا دل آزار باتیں کہنے پر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے طرف سے ایک فطری ردعمل کا اظہار روایتوں میں درج ہے۔ سورۃ المجادلۃ، آیت نمبر ۔22 کے شان نزول کو بیان کرتے ہوئے مفسر القرطبی فرماتے ہیں کہ یہ آیت عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی کے حق میں نازل ہوئی وہ نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے نبی کریم ﷺ نے پانی نوش کیا انہوں نے عرض کی: اللہ کی قسم! یا رسول اللہﷺ آپ اپنے پانی میں سے کوئی چیز باقی چھوڑتے، جسے میں اپنے باپ کو پلاتا ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اس کے دل کو پاکیزہ بنا دیتا؟ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے پانی چھوڑ دیا تو وہ پانی عبد اللہ بن ابی کے پاس لے آیا۔ عبد اللہ بن ابی نے کہا: یہ کیا چیز ہے؟ بیٹے نے کہا: یہ نبی کریم ﷺ کا بچا ہوا پانی ہے تاکہ تو اسے پیے، ممکن ہے اللہ تعالیٰ تیرے دل کو پاکیزہ بنائے۔ اس کے باپ نے اسے کہا: تو اپنی ماں کا بول کیوں نہیں لے آیا وہ اس پانی سے پاکیزہ تر تھا۔ بیٹا غضب ناک ہوگیا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کیا آپ مجھے اپنے باپ کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے؟ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’بلکہ تو اس کے ساتھ نرمی کر اور اس پر احسان کر‘‘(اوکما قال ﷺ)
ابن جریج نے کہا: مجھے یہ بیان کیا گیا ہے کہ ابو قحافہ نے نبی کریم ﷺ کو برا بھلا کہا ان کے بیٹے حضرت ابوبکر (رض) نے اسے ایک تھپڑ مارا اور وہ اپنے منہ کے بل گرگیا۔ پھر وہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کا ذکر آپ سے کیا۔آپ ﷺ فرمایا:’’کیا تو نے ایسا کیا ہے؟ آئندہ ایسا نہ کرنا‘‘۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کی: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! اگر تلوار میرے قریب ہوتی تو میں اسے قتل کردیتا(غور طلب بات یہ ہے کہ حضور ﷺ نے بیٹوں کو اپنے والد کے متعلق آئندہ مارنے سے منع فرمایا)
سننن ابو داود، حدیث نمبر 4361 میں اسی طرح کا ایک نابینا صحابیؓ کے فطری ردعمل کا بیان ہے ایک نابینا شخص کے پاس ایک ام ولد تھی جو نبی کریمﷺ کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، وہ نابینا اسے روکتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی، وہ اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی طرح باز نہیں آتی تھی، حسب معمول ایک رات اس نے آپ ﷺ کی ہجو شروع کی، اور آپ کو گالیاں دینے لگی، تو اس (اندھے) نے ایک چھری لی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا کر اسے ہلاک کر دیا، اس کے دونوں پاؤں کے درمیان اس کے پیٹ سے ایک بچہ گرا جس نے اس جگہ کو جہاں وہ تھی خون سے لت پت کر دیا (یہ عورت توہین رسالت کے جرم کی مسلسل عادی ہو گئی تھی)
شاتم رسول واجب القتل ہے کا حکم سورہ التوبہ آیت نمبر ۔12 (اور اگر وہ توڑ دیں اپنی قسمیں عہد کرنے کے بعد اور عیب لگاویں تمہارے دین میں تو لڑو کفر کے سرداروں سے
بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں تاکہ وہ باز آویں) سے استنباط کیا گیا ہے۔احکام القرآن میں بیان ہے ” یہ چیز ان فقاء کے قول کے لئے شاہد کی حیثیت رکھتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ذمیوں میں سے اگر کسی نے
حضور ﷺ کی ذات اقدس کے بارے میں سب دشتم کا اظہار کیا تو وہ نقص عہد کا مرتکب قرار پائے گا اور واجب القتل ٹھہرے گا تاہم اس مسئلے میں فقاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اسے تعزیری سزا دی جائے گی قتل نہیں کیا جائے گا”
اسی آیت کے تفسیر میں امام قرطبی مسئلہ نمبر 6 میں بیان کرتے ہیں کہ” علماء نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے کہ جب کوئی گالیاں دے تو پھر قتل سے بچنے کے لیے اسلام قبول کرے، تو بعض نے کہا ہے: اس کا اسلام لانا اس کے قتل کو ساقط کردے گا اور یہی مشہور مذہب ہے، کیونکہ اسلام اپنے ما قبل ہر شے کو مٹا دیتا ہے۔ بخلاف مسلمانوں کے کہ جب اس نے سب وشتم کیا اور پھر توبہ کرلی۔ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: قل للذین کفرو ان ینتھو یعفرلھم ماقد سلف (الانفال:38) (فرما دیجئے کافروں کو کہ اگر وہ اب بھی باز آجائیں تو بخش دیا جائے گا انہیں جو کچھ ہوچکا) اور بعض نے کہا ہے: اسلام کے قتل کو ساقط نہیں کرے گا‘‘
سورۃ الاحزاب آیت نمبر 57 میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو (قصداً) ایذاء دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر دنیا و آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
سورۃ الحجر آیت نمبر 95 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے اِنَّا کَفَینٰکَ المُستَہزِئِینَ (ترجمہ: ہم تمہیں ان لوگوں (کے شر) سے بچانے کے لیے جو تم سے استہزاء کرتے ہیں کافی ہیں)
اس آیت میں اللہ تعالی کا واضح اعلان ہے کہ اللہ خود ہی رسول ﷺ کے منکرین اور معاندین کے خلاف کاروائی کریگا اور اسے سخت سے سخت سزا دیگا، (آیت) اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَہْزِئِیْنَ میں جن لوگوں کا ذکر ہے ان کے لیڈر پانچ آدمی تھے ،عاص بن وائل، اسود بن المطلب، اسود بن عبدی، غوث ولید بن مغیرہ، حارث بن الطلاطلۃ یہ پانچوں معجزانہ طور پر ایک ہی وقت میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے اشارے سے ہلاک کردیئے گئے۔
ویسے بھی اللہ تعالی کی یہ سنت رہی ہے کہ جب کبھی وہ کسی قوم میں رسول علیہ السلام مبعوث کرتا ہے اور اگر اس کے قوم کے لوگ رسول ؑکی تکذیب اور استہزاء کرتے ہیں تو ایک معین مہلت کے بعد اللہ تعالی ان سبھی منکرین اور معاندین کو ہلاک کر دیتا ہے ،جس کی مثالیں قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم صالح، قوم ابراہیم وغیرہ ہیں، اسی طرح عہد رسالت میں جو لوگ حضور ﷺ کے ساتھ عداوت، معاندت اور دشمنی پر اتر آئے تھے اور رسول ﷺ کو گستخانہ کلمات کہا تھا، اور آپﷺ کو تکلیفیں پہہونچائی تھی اور یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ پر ایمان نہیں لانا ہے، وہ صحابہ کرامؓ کے ہاتھوں نہیں بچ پائے ، اسی جرم کی پاداش میں ملعون ابو جہل دو انصاری نوجوانوں معاذ اور معوذ بن عفراء رضی اللہ عنھماکے ہاتھوں، بدرکے موقع پرقتل ہوا، اورابو عبیدہ بن جراح کے ہاتھوں انکے باپ اور کعب بن اشرف محمد بن مسلمہ کے ہاتھوں قتل کیے گیے۔
ابو لہب اور اسکی بیوی کو سزا!
صحیحین میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ پر آیت وانذر عشیرتک الاقربین نازل ہوئی تو آپ نے کوہ صفا پر چڑھ کر اپنے قبیلہ قریش کے لوگوں کو آواز دی،سب قریش جمع ہوگئے تو
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ دشمن تم پر چڑھ آیا ہے اور صبح شام میں تم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے ،کیا آپ لوگ میری تصدیق کروگے۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا ہاں ضرور تصدیق کریں گے، پھر آپﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں ڈراتا ہوں ایک عذاب شدید سے جو شرک و کفر پر اللہ کی طرف سے مقرر ہے، یہ سن کر ابولہب نے کہا تبا لک الھذا جمعتنا ہلاکت ہو تیرے لئے کیا تو نے ہمیں اس کے لئے جمع کیا تھا اور آپ کو مارنے کیلئے ایک پتھر اٹھالیا، اس پر یہ سورت (المسد) نازل ہوئی۔
واقعہ بدر کے سات روز بعد اسکے طوفان کی گلٹی نکلی ،جس کو عرب عدسہ کہتے ہیں۔ مرض دوسروں کو لگ جانے کے خوف سے سب گھروالوں نے اس کو الگ ڈال دیا یہاں تک کہ اسی بے بسی کی حالت میں مر گیا اور تین روز تک اس کی لاش یوں ہی پڑی رہی، جب سڑنے لگا تو مزدوروں سے اٹھوا کر دبوادیا۔ انہوں نے ایک گڑھا کھود کر ایک لکڑی سے اس کی لاش کو گڑھے میں ڈال دیا اوپر سے پتھر بھر دیئے (بیان القران بحوالہ روح البیان)
. جس طرح ابولہب کو رسول ﷺ سے سخت غیظ اور دشمنی تھی اس کی بیوی بھی اس دشمنی اور رسول ﷺ کی ایذارسانی میں اس کی مدد کرتی تھی۔یہ عورت جنگل سے خاردار لکڑیاں جمع کر کے لاتی اور رسول اللہﷺ کے راستے میں بچھا دیتی تھی تاکہ آپ کو تکلیف پہونچے۔اس کا یہ حال جہنم میں ہوگا کہ اپنے شوہر پر جہنم کے درختوں زقوم وغیرہ کی لکڑیاں لاکر ڈالے گی تاکہ اس کی آگ بھڑک جائے جس طرح دنیا میں وہ اس کے کفر وظلم کو بڑھاتی تھی آخرت میں اس کے عذاب کو بڑھائے گی۔اس کی بیوی اپنی خست طبیعت اور کنجوسی کے سبب جنگل سے سوختہ کی لکڑیاں جمع کر کے لاتی اور اس کی رسی کو اپنے گلے میں ڈال لیتی تھی کہ یہ گٹھا سر سے گر نہ جائے اور یہی ایک روز اس کی ہلاکت کا سبب بن اکر لکڑیوں کا گٹھہ سر پر اور رسی گلے میں تھی تھک کر کہیں بیٹھ گئی اور پھر گر کر اس کا گلا گھٹ گیا اور اسی میں مر گئی۔
سورۃ الکوثر کا نزول!
جس شخص کی اولاد ذکور مر جائے اس کو عرب ابتر کہا کرتے تھے یعنی مقطوع النسل جس وقت نبی کریم ﷺ کے صاحبزادے قاسم ؓیا ابراہیمؓ کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تو کفار مکہ آپ کو ابتر کہہ کر طعنہ دینے لگے ایسا کہنے والوں میں عاص بن وائل کا نام خاص طور پر ذکر کیا جاتاہے۔بعض روایات میں ہے کہ کعب بن اشرف یہودی ایک مرتبہ مکہ مکرمہ آیا تو قریش مکہ اس کے پاس گئے اور کہا کہ آپ اس نوجوان کو نہیں دیکھتے جو کہتا ہے کہ وہ ہم سب سے دین کے اعتبار سے بہتر ہے حالانکہ ہم حجاج کی خدمت کرنے والے اور بیت اللہ کی حفاظت کرنے والے اور لوگوں کو پانی پلانے والے ہیں۔ کعب نے یہ سن کر کہا کہ نہیں تم لوگ اس سے بہتر ہو، اس پر سورۃ کوثر نازل ہوئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ کفار مکہ جو رسول ﷺ کے پسری اولاد نہ رہنے کے سبب ابتر ہونے کے طعنے دیتے تھے یا دوسری وجوہ سے آپ کی شان میں گستاخی کرتے تھے ان کے جواب میں سورۃ کوثر نازل ہوئی ہے، جس میں ان کے طعنوں کا جواب بھی ہے کہ صرف اولاد نرینہ کے نہ رہنے سے آپ کو مقطوع النسل یا مقطوع الذکر کہنے والے حقائق سے بیخبر ہیں۔ اب غور کیجئے کہ
رسول ﷺ کے ذکر کو حق تعالیٰ نے کیسی رفعت اور عظمت فرمائی کہ آپﷺ کے عہد مبارک سے آج تک پوری دنیا کے چپہ چپہ پر آپﷺ کا نام مبارک پانچ وقت اللہ کے نام کے ساتھ میناروں پر پکارا جاتا ہے اور آخرت میں آپ کو شفاعت کبریٰ کا مقام محمود حاصل ہوگا، اس کے بالمقابل دنیا کی تاریخ سے پوچھئے کہ عاص بن وائل، عقبہ، کعب بن اشرف کی اولاد کہاں اور ان کا خاندان کیا ہوا، خود ان کا نام بھی اسلامی روایات سے تفسیر آیات کے ذیل میں محفوظ ہوگی اور نہ دنیا میں آج ان کا نام لینے والا کوئی باقی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا کفار و مشرکین کے طعن و تشنیع کا رد:
سورۃ نون میں کفار کے ان مطاعن کا جواب ہے جو وہ رسول ﷺ پر کیا کرتے تھے۔ سب سے پہلا ان کا طعنہ یہ تھا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے کامل العقل ،کامل العلم،کامل العمل، جامع الفضائل رسولﷺ کو معاذ اللہ مجنون کہتے تھے۔سورۃ نون کی ابتدائی آیتوں میں ان کے اس خیال باطل کی تردید قسم کے ساتھ مؤ کد کر کے بیان فرمائی ہے۔بہرحال اس آیت میں قلم تقدیر یا عام قلم خلائق کی اور پھر لفظ مایسطرون میں جو کچھ ان قلموں سے لکھا گیا یا لکھا جائے گا اس کی قسم کھا کر حق تعالیٰ نے کفار کے اس طعنہ باطلہ کا رد فرمایا کہ آپ مجنون ہیں ارشاد ہوا مَآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْن یعنی آپ اپنے رب کی نعمت و فضل کی وجہ سے ہرگز مجنون نہیں اس میں بنعمتہ ربک بڑھا کر دعویٰ کی دلیل بھی دے دی کہ جس شخص پر اللہ تعالیٰ کی نعمت و رحمت مکمل ہو وہ کیسے مجنون ہوسکتا ہے اس کو مجنون کہنے والا خود مجنوں ہے۔آگے مضمون مذکور کی مزید تائید کے لئے فرمایا، آیت(وَاِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ(اور بیشک آپ کے لئے اجر عظیم ہے جو کبھی منقطع ہونے والا نہیں) مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺکے جس کام کو یہ دیوانی جنون کہہ رہے ہیں وہ تو اللہ کے نزدیک سب سے بڑا مقبول عمل ہے اس پر آپ کو اجر عظیم ملنے والا ہے اور اجر بھی ایسا جو دائمی ہے کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ کہیں کسی مجنون کے عمل پر بھی مجنون کو اجر ملا کرتا ہے۔ (آیت) وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ، اس میں رسول ﷺ کے اخلاق کے متعلق فرمایا) دیوانو !ذرا تو دیکھو کہیں مجنونوں دیوانوں کے ایسے اخلاق و اعمال ہوا کرتے ہیں۔
ہجو کا جواب شاعری سے اور شاتمین رسول کا اسلام قبول کرنا!
رسول اللہﷺ کے زمانہ میں مکہ میں چند بڑے بڑے شاعر تھے ،مثلاً کعب بن زہیر، عبداللہ بن الزبعری اور ہبیرہ بن ابی وہب۔ یہ لوگ اشعار میں رسول ﷺ کی ہجو کیا کرتے تھے اور آپ کو اذیت پہنچاتے تھے، سن 8 ہجری میں مکہ فتح ہوا تو یہ لوگ سزا کے ڈر سے مکہ چھوڑکر بھاگ گئے، ہبیرہ کفر کی حالت میں مر گیا، بقیہ دونوں شاعروں نے بالآخر اسلام قبول کر لیا، اسی کے ساتھ انہوں نے اپنی شاعری کا رخ ہجو کے بجائے مدح کی طرف پھیر دیا، کعب بن زہیر جب مدینہ لوٹا تو انصار میں سے ایک شخص ان پر ٹوٹ پڑا اور کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ مجھے اور اس دشمن خدا کو چھوڑ دیجئے کہ میں اس کی گردن مار دوں مگر رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ انصاری کو خاموش کر کے بٹھا دیا اور کعب بن زہیر کو قتل کرنے کے بجائے ان کے لیے دعا فرمائی۔قبول اسلام کے بعد انھوں نے آپ ﷺ کی مدح میں ایک شاندار قصیدہ لکھا جو قصیدہ بانت سعاد کے نام سے مشہور ہے، ابن ہشام نے اپنی کتاب میں اس کے 59 شعر نقل کیے ہیں۔اس قصیدہ کا ایک مصرع یہ ہے کہ رسول اللہﷺ بیشک ایک نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔
عبداللہ بن الزبعری مکہ کے ممتاز شعراء میں سے تھا۔ مکی دور کا واقعہ ہے۔ قران میں یہ آیت اتری کہ تم اور جن کی عبادت کرتے ہو سب کے سب جہنم کا ایندھن بنیں گے (الانبیاء ۔98) رسول اللہﷺ نے جب مکہ والوں کے سامنے یہ آیت پڑھ کر سنائی تو عبداللہ بن الزبعری نے کہا کہ اے محمدﷺ، کیا جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے وہ سب اپنے پرستاروں کے ساتھ جہنم میں ہونگے۔ تو ہم لوگ فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں، یہود عزیر پیغمبر کی عبادت کرتے ہیں، اور نصاریٰ عیسی ابن مریم کی عبادت کرتے ہیں ۔یہ بلا شبہ نہایت گستاخی کا فعل تھا،لیکن حضور ﷺ نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ جواب دیتے ہوئے کہا:جو کوئی یہ پسند کرے کہ اللہ کے سوا اسی کی عبادت کی جائے تو وہ اسی کے ساتھ ہوگا ،جس نے اسکی عبادت کی، جب عبداللہ بن الزبعری نجران سے واپس مدینہ لوٹا تو وہ رسولﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اسکے بعد اس نے بہت سے اشعار کہے، ان اشعار میں اس نے کھلے طور پر اپنی ماضی کی غلطی کا اعتراف کیا اور آپ کی تعریف میں اشعار کہنے لگا۔
قدیم زمانے میں کسی بات کی شایع ضایع کرنے میں شاعری کا اہم رول ہوا کرتا تھا، مشرکین عرب جب پیغمبر اسلام پر ہجو کرتے تھے تو حسانؓ بن ثابت الانصاری جوابی ہجو کے ذریعہ آپﷺ کی طرف سے اس کا دفاع کرتے تھے۔اس مقصد کی خاطر حسان ؓبن ثابت کے لیے مسجد نبوی میں ایک منبر رکھا جاتا تھا۔اس پر بیٹھ کر وہ اپنے جوابی اشعار پڑھتے تھے اور اس طرح رسول اللہﷺ کی طرف سے شاتمین کے مقابلہ میں مدافعت کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ سے دعا کرتے کہ اے اللہ تو روح القدس سے حسان کی مدد فرما۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارے اشعار مشرکین کو زیر کرنے کے لیے تیر سے بھی زیادہ سخت ہیں۔
حضرت عبداللہ ؓبن جبیر جب شام کے سفر کو جانے لگے تو حضرت محذورہ سے جن کی گود میں انہوں نے ایام یتیمی بسر کئے تھے، کہا آپ کی اذان کے بارے میں مجھ سے وہاں کے لوگ ضرور سوال کریں گے تو آپ اپنے واقعات تو مجھے بتا دیجئے۔ فرمایا ہاں سنو جب رسول اللہﷺ حنین سے واپس آ رہے تھے، راستے میں ہم لوگ ایک جگہ رکے، تو نماز کے وقت حضور ﷺ کے مؤذن نے اذان کہی، ہم نے اس کا مذاق اڑانا شروع کیا، کہیں آپ کے کان میں بھی آوازیں پڑگئیں۔ سپاہی آیا اور ہمیں آپ کے پاس لے گیا۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم سب میں زیادہ اونچی آواز کس کی تھی؟ سب نے میری طرف اشارہ کیا تو آپ نے اور سب کو چھوڑ دیا اور مجھے روک لیا اور فرمایا ” اٹھو اذان کہو ” واللہ اس وقت حضور ﷺ کی ذات سے اور آپ ﷺکی فرماں برداری سے زیادہ بری چیز میرے نزدیک کوئی نہ تھی، لیکن بے بس تھا، کھڑا ہوگیا، اب خود آپ نے مجھے اذان سکھائی اور جو سکھاتے رہے، میں کہتا رہا، پھر اذان پوری بیان کی، جب میں اذان سے فارغ ہوا تو آپ ﷺنے مجھے ایک تھیلی دے، جس میں چاندی تھی، پھر اپنا دست مبارک میرے سر پر رکھا اور پیٹھ تک لائے، پھر فرمایا اللہ تجھ میں اور تجھ پر اپنی برکت نازل کرے۔ اب تو اللہ کی قسم میرے دل سے رسول اللہﷺ کی عداوت بالکل جاتی رہی، ایسی محبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دل میں پیدا ہوگئی، میں نے آرزو کی کہ مکہ کا مؤذن حضور ﷺ مجھ کو بنادیں۔ آپ ﷺنے میری یہ درخواست منظور فرما لی اور میں مکہ میں چلا گیا اور وہاں کے گورنر حضرت عتاب بن اسید سے مل کر اذان پر مامور ہوگیا۔ حضرت ابو مخدورہ کا نام سمرہ بن مغیرہ بن لوذان تھا، حضورﷺ کے چار مؤذنوں میں سے ایک آپ تھے اور لمبی مدت تک آپ اہل مکہ کے مؤذن رہے۔
عکرمہ بن ابی جہل کو معافی!
ابو جہل کے لڑکے کا نام عکرمہ تھا۔ فتح مکہ سے پہلے وہ رسول اللہﷺ کے سخت مخالف تھے۔گستاخی اور جارحیت کی کوئی قسم نہ تھی جو انہوں نے آپﷺ کے خلاف اختیار نہ کی ہو۔ مثلاً غزوۂ احد میں مشرک فوج کے میمنہ کے سردار خالد بن ولید تھے، اور میسرہ کے سردار عکرمہ بن ابی جہل۔فتح مکہ کے بعد وہ مکہ چھوڑکر یمن چلے گئے۔ کیونکہ انھیں یقین تھا کہ وہ ضرور قتل کر دیے جاینگے۔ ان کی بیوی جو مسلمان ہو گئی تھی وہ یمن جاکر انہیں واپس لے ایں۔ جب وہ رسول اللہﷺ کے پاس آے تو پوچھا کہ کیا مجھے امان ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ ہاں،تم کو امان ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد عکرمہ نے رسول اللہﷺ سے کہا کہ ہر دشمنی جو میں نے آپ کے ساتھ کی ہے، یا ہر رکاوٹ جو میں نے آپ کے راستے میں ڈالی ہے، ہر وہ لڑائی جو میں نے آپ کے خلاف لڑی ہے وغیرہ ان سب کو آپﷺ معاف کر دیں اور انکے بارے میں اللہ سے میرے لیے استغفار فرمایں۔رسول اللہﷺ نے فوراً آپ کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ ان کے گناہوں کو معاف فرما دے۔یہ وہی عکرمہ ہے جو یرموک کے معرکہ میں شہید ہو گئے۔
حضور اکرمﷺ کا ثمامہ بن اثال پر احسان!
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ نے نجد کی طرف کچھ سوار روانہ فرمائے تو وہ ایک شخص کو پکڑ لائے جو قوم بنی حنیفہ میں سے تھا اور اسے ثمامہ بن اثال کہتے تھے، پھر اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ نبی کریمﷺ نے اس کے پاس جا کر کہا: ’’اے ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے؟‘‘ (کہ میں تیرے ساتھ کیا کروں گا) وہ بولا کہ اے محمدﷺ! میرا خیال بہتر ہے، اگر آپ مجھے مار ڈالیں گے تو بھی کوئی قباحت نہیں کیونکہ میں نے بھی جنگ میں مسلمانوں کو مارا ہے اور اگر آپ احسان کر کے مجھے چھوڑ دیں گے تو میں آپ کا شکرگزار ہوں گا اور اگر آپ مال و دولت چاہتے ہوں تو وہ بھی حاضر ہے، جتنا آپ چاہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ چلے گئے، دوسرے دن پھر آپ ﷺ نے پوچھا: ’’اے ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے؟‘‘ وہ بولا کہ میرا خیال وہی ہے جو میں عرض کر چکا کہ اگر آپ احسان کر کے چھوڑ دیں گے تو میں شکرگزار ہوں گا۔ آپ ﷺ نے اس کو ویسا ہی بندھا رہنے دیا۔ پھر تیسرے دن پوچھا: ’’اے ثمامہ! تیرا کیا گمان ہے؟‘‘ وہ بولا کہ وہی جو میں عرض کر چکا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ثمامہ کو آزاد کر دو۔‘‘ لوگوں نے تعمیل کر کے چھوڑ دیا۔ ثمامہ ایک تالاب پر جو مسجد کے قریب تھا، گیا اور غسل کر کے مسجد میں آیا اور کہنے لگا کہ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور بیشک محمد ﷺ کے رسول ہیں، اے محمدﷺ! اللہ کی قسم مجھے تمام روئے زمین پر کسی کا چہرہ دیکھ کر اتنا غصہ نہیں آتا تھا جتنا آپ کا چہرہ دیکھ کر آتا تھا۔ اب آج کے دن آپ کا چہرہ مبارک سب سے زیادہ مجھ کو پسند ہے اور اللہ کی قسم آپ کے دین سے زیادہ کوئی دین مجھے برا معلوم نہ ہوتا تھا اور اب آپ کا دین مجھے سب سے بھلا معلوم ہوتا ہے اور اللہ کی قسم! میرے نزدیک آپ کے شہر سے برا کوئی شہر نہ تھا اور اب آپ کا شہر میرے نزدیک سب شہروں سے بہتر ہو گیا، آپ ﷺکے سواروں نے مجھ گرفتار کیا، جب کہ میں عمرہ کے ارادہ سے جا رہا تھا، اب آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو رسول اللہﷺ نے اسے مبارکباد دی اور اسے عمرے کا حکم دیا۔ جب وہ مکہ میں آئے تو کسی نے اس سے کہا کہ تم بے دین ہو گئے ہو؟ وہ بولے نہیں اللہ کی قسم! بلکہ محمد رسول اللہﷺ کے دست حق پرست پر مسلمان ہو گیا ہوں اور اللہ کی قسم! تمہارے پاس یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی نہ آنے پائے گا جب تک کہ نبی کریم ﷺ اجازت نہ دیں گے (بخاری شریف، باب غزوات نبویﷺ)