سری نگر: جموں وکشمیر میں حد بندی (Delimitation) سے متعلق کمیشن (Delimitation Commission) سیاسی پارٹیوں سے بات کر رہا ہے۔ اس درمیان پرزنٹیشن دینے پہنچی جموں صوبہ کی بی جے پی (BJP) نے انتخابی حلقوں کو دوبارہ بنائے جانے کے لئے 2011 کی مردم شماری (2011 Census) کے اعدادوشمار کے استعمال پر اعتراض ظاہر کیا ہے۔ کمیشن کے سامنے پرزنٹیشن دینے پہنچی بی جے پی کے وفد نے حد بندی میں رائے دہندگان کی فہرست کو دھیان میں رکھے جانے کی بات کہی ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، سابق وزیر سنیل شرما نے کہا، ’انہوں نے 2011 کی مردم شماری کے استعمال کی مخالفت کی تھی، کیونکہ اس کے اعدادوشمار میں کافی ہیرا پھیری کی گئی تھی‘۔ انہوں نے کہا، ’چونکہ رائے دہندگان کی فہرست ہر سال اپڈیٹ ہوتی ہے، تو اس کی بنیاد پر آبادی کے تناسب کا پتہ لگایا جانا چاہئے‘۔ سنیل شرما کی قیادت میں کشتوار، ڈوڈہ اور رامبن ضلع کے بی جے پی وفد نے پینل کے سامنے اپنا مطالبہ پیش کیا تھا۔مرکز کے زیر انتظام ریاست کی پارٹی کے سربراہ رویندر رینا کی قیادت میں ایک الگ ٹیم نے پینل سے ملاقات کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے ہوئی حد بندی میں ایک حلقے سے متعلق ’یکطرفہ‘ فیصلہ کیا گیا تھا۔ وفد نے بڑھی ہوئی آبادی کے ڈیٹا کی جانچ کے لئے آدھار ڈاٹا کا استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ حکومت کی طرف سے تیار کئے گئے جموں وکشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 میں 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر حد بندی کیا جانا طے ہوا ہے۔حکومت کی طرف سے سال 2019 میں پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے ڈیٹا کے مطابق، دونوں خطوں میں رائے دہندگان میں کافی کم فرق ہے۔ جموں میں رائے دہندگان کی تعداد 37.33 لاکھ ہے وہیں کشمیر میں 40.10 لاکھ رائے دہندگان ہیں۔ جموں وکشمیر میں آخری بار حد بندی 1995 میں ہوئی تھی۔یونائیٹیڈ جموں کے صدر ایڈوکیٹ انکر شرما سوال اٹھاتے ہیں کہ 1990 میں دہشت گردی کے فروغ کے بعد وادی سے بڑی سطح پر پنڈتوں اور سکھوں کے نقل مکانی کے باوجود 2011 کی آبادی سے جموں کی آبادی کشمیر کے مقابلے دھیمی کیسے رہی۔ خاص بات یہ ہے کہ جموں وکشمیر ملک کا واحد ایسا صوبہ یا مرکز کے زیر انتظام صوبہ ہوگا، جس کی حد بندی سال 2011 کی آبادی کی بنیاد پر کیا جارہا ہے۔ آخری بار ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام ریاستوں کی حد بندی 2001 مردم شمار کی بنیاد پر کی گئی تھی۔