ہر ایک انسان اور قوم کا یہ خواب ہوتا ہے کہ وہ ترقی کرے۔قومیں ترقی سے ہی پروان چڑھتی ہیں۔ جس قوم میں ترقی کا مادہ نہ ہو اس کے زوال کی گارنٹی ہے۔
ہر قوم کی اصل ترقی اس کے افراد کی ترقی سے مشروت ہے۔ جس قوم کے افراد محنت اور لگن سے ترقی کے لئے جدوجہد کریں اس کی حقیقی ترقی یقینی ہے۔لیکن ترقی محض نمبروں کا نام نہیں۔ترقی وہ ہے جو زمین پر بھی ظہور پزیر ہو۔ یہ صرف کاغزوں پر تحریر کی طرح نہ ہو۔ لیکن سیاستداں کبھی کبھی تاناشاہ بن کر ملکوں کو حقیقی طرقی کے بجائے صرف ترقی کے وہم سے آشنا کرتے ہیں۔ اس کی بجا مثال چین سے ملتی ہے جب ماو سی تانگ وہاں حاکم عالیٰ تھا۔ ماو نے حکم دیا کہ زراعت میں پیداوار کو یک دم دوگانہ یا تین گنا بڑا دیا جائے۔ یہ حکم نامہ بغیر کسی تنقید کے محکموں میں اوپر س نیچے تک لایا گیا۔ کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ سچ کہہ دے کہ یہ شاید اتنی جلدی ممکن نہ تھا۔ اس لئے ہر ایک نے جھوٹ کا سہارا لیا۔ ہر ایک نے اپنی قابلیت کا ثبووت دینے کے لئے فرضی نمبر لکھ دیے اور واپس نیچے سے اوپر تک محض کاغزوں پر پیداور کے دوگنا یا تین گناہ ہونے کا اعتراف کیا۔ ہر ایک کارکن اور افسر نے اپنے اعلیٰ افسر کی شاباشی حاصل کرنے کے لئے بات کو بڑا چھڑا کر پیش کیا۔ ان خیالی رپورٹوں سے ملک کا وہی حال ہونا تھا جو اصل پانی میں کاغز کی نقلی ناو کا ہوتا ہے۔ ١٩۵٨ میں چینی حکومت کو یہ معلوم ہوا کہ زراعت کی پیداور میں پچاس فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس لئے حکومت نے خوشی سے لاکھوں ٹن چاول باقی ملکوں کو بیچ کر ہتھار اور اصلحے خرید لئے۔ پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین کہ ہسٹری میں سب سے بڑی قحط سالی نے اس ملک کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ اس قحط سالی کی وجہ سے لاکھوں افراد غزا کی شدید قلت کی وجہ سے لقمہ اجل ہوئے۔ اس سے یہ سبق ملا کہ ہم محظ جھوٹ بول کر کبھی سپر پاور نہیں بن سکتے ہیں۔ سپر پاور بننے کے لئے ہم کو مل جھل کر محنت کرنا سیکھنا ہوگا۔ملک کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ ہر فرد کی زندگی کو بہتر سے بہتر کرئے اور ہر فرد کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے وطن کی ترقی اور بقا کی خاطر ہر تعمیری عمل میں اپنا رول ادا کرے اور ہر تخریبی رول سے خود کو اور اروں کو بچائے۔ محنتی اور ذمہ دار افراد ہی ایک قوم اور وطن کے معمار ہوتے ہیں۔ اگر وہ ایک دوسرے کو دوکھا دیں تو اس میں دونوں کا نقصان ہے۔صرف سچ سے ہی افراد اور قوموں کا بھلا ہوتا ہے۔اسی لئے کسی نے خوب کہا ہے کہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے۔جھوٹ بول کے ہم کچھ دیر شاید اپنے دل کو جھوٹی تصلی دے سکتے ہیں مگر جب حقیقت کھل جاتی ہے تو جھوٹ خود رسوا ہو جاتا ہے۔ اسی لئے قران کریم میں بھی درج ہے کہ جب سچ آشکار ہو جاتا ہے تو جھوٹ ہمیشہ کے لئے فنا ہو جاتا ہے۔ہمارے لئے بہتر یہ ہے کہ ہم ہمیشہ بنا گھبرائے سچ کا ساتھ دیں۔ اگر اس میں وقتی طور پر ہمارا نقصان ہی ہو مگر صرف سچ کی برکت سے ہی ہمارا، ہمارے قوم کا اور ہمارے وطن کا بھلا ہوگا۔جھوٹ سے صرف ترقی کا وہم ممکن ہے مگر سچ میں ہی ہماری حقیقی ترقی کا راز مضمر ہے۔
ہلال بخاری
ساکنہ . ہردوشورہ کنزر
رابتہ . 9622791038