از قلم۔ طارق اعظم
خالقِ احسن نے حسین انداز میں اس کانات کی تخلیق کی ہے۔ جس میں رنگا رنگ ایک دوسرے سے الگ تھلگ مخلوقات مبعوث کیں ہیں۔ اور ہر زی جان کو زیست گزارنے کا علم عطا کیا ہے۔ مثلاً جنگل کا بادشاہ شیر وہ خالص گوشت کھا سکتا ہے ۔نہ کہ گھاس اور وہی اگر گا کو لے جا تو وہ فقط گاس کھا گی نہ کہ گوشت ۔ مطلب کہ ہر جانور فطری علم کے مطابق زندگی گزارتا ہے ۔جو کہ محدود ہے۔ مگر جن ، انسان و ملک واحد ایسی مخلوقات ہیں۔ جو جتنا چاہیں۔ علم حاصل کرسکتے ہیں۔ مگر یہ بھی تب ہی ممکن ہے جب علم سکھانے والے میسر ہوں۔ اسی لیے اللہ تعالی نے ہر زمانے میں اپنے برگزیدہ علما کرام پیدا کیں ہے۔ قرن آدم علیہ سلام سے لیکر یومِ ھٰذا تک علمإ کرام کا نزول مسلسل جاری رہا ہے۔ پہلے زمانوں میں اللہ تعالی نے لوگوں کی صحیح رہبری و رہنمای کے لیے علم و حکمت سے سرشار پیغمبروں کو بھیجا۔ کیوں کہ ایک علم رکھنے والا ہی لوگوں کو سمجھا سکتا ہے کہ صحیح اور غلط ، حلال اور حرام ، بے حیای اور حیاداری میں کیا فرق ہے۔ چنانچہ اللہ پاک قرآنِ کریم میں فرماتے ہے۔ کہ علم رکھنے والے اور علم نا رکھنے والے یعنیٰ جاہل لوگ برابر نہیں ہوسکتے ہیں۔ تواریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی انقلاب یں ہیں۔ ان میں اہلِ علم کا سب سے زیادہ رول رہا ہیں۔ اگر آج سے پہلے ساڑھے چودہ سو سال کی تواریخ کے اوراقوں پر نظر ڈالتے ہے۔ تو ایک عظیم انقلاب دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور وہ انقلاب لانے والا کانات کا سب بڑا عالم ، مفکر ، داعی ، مجاہد غرض کہ علم کا سمندر تھا ۔جس نے دنیا کو ایک روشن اور با مقصد ضابطہ حیات سے روشناس کیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ پتھروں کو سلیقے سے تراش کر بے شمار علم کے ہیروں کو چمکایا۔ پھر صحرا کا ذرہ ذرہ گواہ ہے کہ کس قدر ان علم کے ہیروں نے سر زمینِ حجاز کو حقیقت سے منور کیا۔ بدعت، رسم ، شرک و کفر کی تاریک شبوں کو توڑ کر ایمان و یقین ، علم و حکمت کا آفتاب روشن کیا۔ اسی لیے اللہ پاک نے علمإ کرام کا مرتبہ بھی عام انسان سے بہت بلند کیا ہے۔ ان کی شان میں قرآنِ کریم میں اللہ پاک فرماتے کہ سب سے زیادہ مجھے سے ڈرنے والے فقط علما ٕ کرام ہیں۔ اور ایک واقعہ سے بھی فرشتوں کو سمجھایا کہ علم رکنھے ولا اور علم نہ رکھنے والا برابر نہیں ہوسکتے ہے۔بلکہ عالم کی شان و عظمت بھی سکھای۔ اسی ضمن میں اللہ پاک نے جب آدم علیہ سلام کو چیزوں کا علم سکھایا اور پھر فرشتوں سے کہا کہ ان چیزوں کے نام بتائيں ۔ وہ بولیں یا اللہ آپ کی ذات ہر عیب سے پاک و منزہ ہے ہمیں ان چیزوں کا علم نہیں سوا اس کے جو آ پ نے ہمیں عطا کیا ہے۔ پھر آدم علیہ سلام کہا آدم ذرا آپ ان چیزوں کے نام بتائيں ۔تو آدم علیہ سلام نے ایک ایک کر کے ہر چیز کا نام بتایا ۔تو اللہ پاک نے اسکی تعظیم میں فرشتوں کو حکم کیا کہ سب کے سب آدم علیہ سلام کو سجدہ کریں۔ یہ ان کو سمجھایا کہ ایک عالم کا کیا مقام ہوتا ہے۔ لہٰزا علما کرام کی اطاعت و صحبت اختیار کرنا لازمی ہے۔ کیوں کہ ان کی صحبت میں بیٹھ کر ایک شخص بے شمار فیوض سے مالا ہو سکتا ہے۔ جیسے ایمان میں تقویت آجا گی ۔ خوفِ خدا طاری ہوگا۔ نماز ، روزہ ، زکاة و حج اور بھی کہی مسائل درست ہوں گیں۔ علما کرام ہی سکھاتے ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کسی اور سے مانگنا ناجائز ہے واحد ایک خدا ہے جو حاجت مندوں حاجت روا کرتا ہے مشکل زدوں کی مشکل کشای کرتا ہے۔ علما کی شان میں حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ حضرت لقمان نے بیٹے کو فرمایا کہ بیٹے! علمٕ کے پاس لازمی بیٹھنا اور حکمت والوں کی باتوں کو غور سے سننا کیوں کہ اللہ تعالی مردہ دلوں کو حکمت کے نور سے زندہ فرماتا ہے ۔جس طرح کہ وہ مردہ زمین کو زور دار بارش سے زندگی بخشتا ہے۔ اور دین حق میں علما کرام کی بہت اہمیت ہے۔ اسی لیے کہ ہر مسلمان کو عبادات کے علاوہ زندگی کے بہت سارے معملات کو انجام دینا ہوتا ہیں۔ جو کہ علما ٕ کرام سے پوچھ پوچھ کر ہی حقیقت کی دہلیز پر پہنچ سکتے ہیں۔ اسی لیے علما کرام کی رہنمای اور نگرانی میں رہنے سے ہی ہماری نجات ہے۔ ورنہ ان اقوام کا حال بھی تواریخ کی جبین پر عیاں ہیں۔ جنہوں نے اپنے وقت کے علما ٕکرام روگردانی کی ان سے متنفر ہواور ان کی شان میں بے ادبی کی۔ اندلس ، سمرقند ہسپانیاں اور دیگر قوم اسکی واضح تشریح ہے۔ اسی لیے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ جو شخص علماء کی توہین و بے ادبی کرتا ہے اس پر کفر اور سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہے۔ علامہ ابن نجیم مصری فرماتے ہیں : الاستہزاء بالعلم والعلماء کفر ۔ علم اور علماء کی توہین کفر ہے۔ لہٰزا اپنے آپ کو اس وعید سے بچایں۔ یہ غیروں کی سازش ہے۔ جو ہمیں سمجھ میں نہیں آتی۔ کیوں ان کو پتہ ہے رہبر کامل حضور ﷺ جب اس دنیا سے واپس تشریف لے رہے تھے ۔تو علما کرام کے حوالے اس امت کیا ہے۔ اسی لیے وہ لوگ اس امت کا اتحاد اور اتفاق توڑنے کیلے وہ علما ٕ کرام سے متنفر کر رہے ہیں۔ اور افسوس کے یہ بھی لکھنا پڑتا ہے کہ کہی کلمہ گو اس جال میں پھس بھی ہیں۔ جو دو چار کتابیں پڑ کر وقت کے شیخ القرآن اور شیخ الحدیث جیسی معزز ہستیوں کو بُرا بلا کہتا ہے۔ کیا اس جانور نما انسان یہ بھی خبر نہیں کہ نبی اکرم ﷺ نےٕ کو العلما ورثه الانبیا کہا ہے ۔ کہ علما کرام نبیوں کے وارث ہے۔ اور انبیا کی میراث علم تھی حکمت تھی جو کہ علما کرام کو بھی وراثت میں نصیب ہوی۔ امام جعفر صادقؒ فرماتے ہے کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالی علما کی جماعت کو اکھٹا کریں گے اور ایک ترازو میں علما کرام کے قلم کی سیاہی اور شہدا کے لہو کا موازنہ کیا جا گا۔ تو علما کے قلم کہ سیاہی شہدا کے خون پر بھاری اور بر تر ہوگی۔
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا
معاشرے کی سدھار اور اصلاح کے لیے علما کرام نے کتنی قربانیاں دی ہیں۔ اگر لکھنے لگو تو قلم ٹوٹ جایں گیں۔ سیاہی ختم ہوجا گی۔ پھر بھی علما کرام کی قربانیوں کا ذکر مکمل نہیں ہوگا۔ حدیث پاک میں آتا ہے ۔کہ علمإ کرام کی نید بھی عبادت کے برابر ہے۔ ہندوستانِ کی جنگِ آزادی میں علما کرام نے جو قربانی پیش کی ہے اس کا ازالہ کبھی بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ جب قوم کو علم کی ضرورت پڑی ۔ تو علما کرام نے پیش کیا۔ جب قوم کو تزکیہ کرنے کی ضرورت پڑی تو علما حاضر ہو۔ اور جب قوم کو لہو کی ضرورت محسوس ہوی تو علما کرام نے پیش کیا۔ شاید ہی سماج کا کوی ایسا کو شعبہ جہاں ایک عالم کی ضرورت نہ ہو۔ ہمیں علما کرام کے دامن کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا اسی میں خیر و برکت ہے۔ خالی دنیا میں نہیں بلکہ کل جنتی کو جنت میں بھی علما ٕ کی ضرورت پڑے گی۔ اللہ تعالی ہمیں علما ٕ کرام کی اطاعت اور خدمت کرنے کی توفیق عطا کریں۔
از قلم۔ طارق اعظم
ساکنہ۔ ہردوشورہ ٹنگمرگ