تحریر: بشیر احمد ڈار
کشمیر میں جن مبلغین نے اسلام کے گلشن کی آبیاری کی ان میں حضرت میر سید تاج الدین ہمدانیؒ کا نام خاص طور سے قابل ذکر ہے وہ ہمدان سے تشیف لانے والے اولین سادات میں سے ہیں حضرت میر سید تاج الدین ہمدانیؒ کے والد گرامی امیرالامراء حضرت سید حسن ہمدانیؒ تھے اور حضرت میر سید محمد ہمدانیؒ کے پوتے تھے.آپ حضرت امیر سید شہاب الدینؒ کے بتھیجے اور امیر کبیر حضرت میر سید علی ہمدانیؒ کے چچیرے بھائی تھے، آپ کے برادرِ اصغرحضرت میر سید حُسین(سمنانی) الہمدانیؒ تھے ۔آپؒ کا سلسلہ نسب بارہ واسطوں سے حضرت زین العابدین ؒ سے جا ملتا ہے۔جو کہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے سید تاج الدین بنِ الامیر سید حسن بنِ سید محمد الثالث بنِ سید علی بنِ سید یوسف بنِ سید محب بنِ سید محمد الثانی بنِ سید جعفر بنِ سید عبداللہ بنِ سید سید محمد الاول بنِ سید علی بنِ سید حسن المحدث بنِ حُسین الاصغر بنِ امام زین العابدینؑ بنِ امام حُسینؑ۔
انکا خاندان ایران کے مشہور شہر ہمدان میں سادت، شرافت علم وعمل کےلئے نامور تھا۔ ساتھ ہی سیاست و شجاعت بھی اس خاندان کو ورثہ میں ملی تھی.آپ کے خانوادہ کی توصیف میں ایران کے ایک عالم نے یوں کہا تھا.
ایں عجواقف سعادت
آں شارح و شرع و جادہ جود
جنات بخش حیات سادات
آن سدرہ غای سدرہ مخضود
وان پاک سلالہ جلالت
وین قطب کلید دین و داداست
آں صلب شجاعت و رسالت
بر مادر آسماں گشادہ است
دیگر صوفیا کی طرح آپ کے ابتدائی حالات گوشہ اخفاء میں ہیں .آپ 720ھ کے قریب شہرِ ہمدان میں تولدہوۓ ۔اس زمانے کی روایت کےمطابق ابتدائی تعلیم اپنے خانوادہ سے ہی حاصل کی۔حضرت میر سید تاج الدین ہمدانیؒ کی حیرت انگیز فعالیت اور ان کے کارنامے دیکھ کر اس بارے میں شبہ نہیں رہتا کہ آپ تمام علمی مدارج طے کرکے ایک بلند مقام پر فائز ہوکر علمی,فکری اور معنوی حیثیت کے حامل قرار پائے تھے۔ کشمیر میں آپ کی تشریف آوری کا ذکر یہاں کی دور وسطی کی تواریخ میں ملتا ہے.آپ کشمیر میں تشریف لانے والےاولین سادات میں سے ہیں آپ اپنے برادر اصغر حضرت سید حیسن سمنانیؒ سے بھی پہلے کشمیر میں تبلیغ دین کےلئے آئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان سادات کو حضرت امیر کبیر میر سید ہمدانی ؒ نے ہر اول دستے کے طور پر تبلیغ دین کےلئے روانہ کردیا تھاتاکہ وہ یہاں کے حالات وکوائف سے آگا ہی حاصل کرکے انہیں مطلع فرمادیں اور ساتھ ہی اشاعت اسلام کے عظیم کام کا بھی آغاز کریں ۔ دوسری بات جو قابل دلچسپ ہے کہ ان سادات نے اپنا تمام کنبہ ہی نہیں بلکہ خاندان اور رشتہ دار تبلیغ دین کےلئے وقف کئے تھے اور انہوں نے تبیلغ اسلام کےلئے اپنے وطن عزیز کو خیرباد کرکے راحت و پُر سکون زندگی ترک کرکے اور ناخوشگوار موسمی حالات کا سامنا کرتے ہوٸے اور دشوار گزار راستوں کو عبور کرتے ہوٸے وادی کشمیر آنے کا فیصلہ فرمایا ۔
آپ نے قران کے اس حکم "سیرو فی الارض” کی اتباع میں کئی ممالک کے تبلیغی دورے کئے جو کہ دور وسطی کے صوفیا کی عمومی روایت تھی جس وقت آپ کشمیر تشریف لائے ان دنوں کشمیر کے فرمانروا شہمیری خاندان کے سلطان شہاب الدین تھے انکا فرزند مرزا حسن خناق کی بیماری کی وجہ سے قریب المرگ تھا مگر سیدتاج الدین ؒ کے ساتھ آٸے رفیق سید مسعود ؒ کی دعا سے صحت یاب ہوگیا یہ کرامت دیکھ کر سلطان نے نہایت عزت و احترام کے ساتھ انکے ہاں ہی قیام کرنے کی گزارش کی لیکن آپ نے یہ کہہ کر وہاں رہنے سے انکار کیا کہ وہ اپنے مرشد سید تاج الدینؒ کے بغیر وہاں قیام نہیں کرسکتے۔ اس سلسلے میں سلطان شہاب الدین نے سید مسعود ؒ سے سید تاج الدینؒ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور ان کی وساطت سے سید تاج الدین ؒ کے نام ایک خط بھی ارسال کیا۔
حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ نے تبلیغِ اسلام کے لئے وادی کشمیر آنے کا فیصلہ فرمایااور اپنے آبائی وطن ہمدان کو الوداع کہہ کر عیش و عشرت اور آرام و آرائش کو ٹھوکر مار کر دُشوار گُزار راستوں سےسفر طے کرکےکشمیر کی طرف رختِ سفر باندھ لیا کہ تاریخ ورود پر یہ شعر نقل ہوا ہے.
خرد گوفت تاریخ تشریف اُو
قدم رنجہ سید نیک رو
تورایخ میں درج ہے کہ سید تاج الدین اور انکے برادر سید حسین سمنانی کا شاہ وقت نے بڑی عزت و تکریم کے ساتھ استقبال کیا
آپ کی کشمیر میں تشریف آوری 762ھ بمطابق 1360ء میں ہوٸی اس طرح سے آپ کشمیر میں مذہبِ اسلام کی تبلیغ کے ضمن میں دوسرے مبلغ قرار پاتے ہیں کیونکہ آپ سے قبل حضرت سید شرف الدینؒ (عبدالرحمن) المعروف بُلبل صاحب یہاں تشریف لاچُکے تھے۔ حضرت میر سید تاج الدین ہمدانیؒ کے ساتھ ان کے برادر حضرت میر سید حسین سمنانیؒ , رُستمِ ہند حضرت سید حسن بہادرؒ,حضرت سید حیدرؒ, حضرت سید یوسفؒ اور حضرت سید مسعودؒ بھی تھے کشمیر کے حکمران سلطان شہاب الدین نے آپ کا استقبال نہایت گرمجوشی سے کیا ۔سلطان نے حضرت میر سید تاج الدین ہمدانی کے بیٹے حضرت میر سید حسن بہادرؒ کی جرأت و بہادری کے پیش نظر انکو فوج کا کماندار مقرر کیا اور انکو "رستم ہند”کا خطاب بخشا ۔کابل اور بدخشان کی فتح کے بعد سلطان شہاب الدین نے اپنی بیٹی انکے نکاح میں دے دی۔اس سے قبل ہندوستان کی ایک جنگی مہم کے بعد دہلی کے سلطان فیروز شاہ نے اپنی دختر سید حسن بہادر سے بیاہی تھی۔ ان سے ان کی ایک بیٹی پیدا ہوٸی جسکا نام حضرت سیدّہ تاج بی بی خاتونؒ تھا اور ان کا نکاح حضرت میر سید محمد ہمدانیؒ سے ہوا جو کہ شاہِ ہمدان امیر کبیر حضرت میر سید علی ہمدانیؒ کے فرزند تھے۔ کشمیر کی سیاست میں سادات کرام کایہ ابتدائی دور تھا پھر آگے بڑھ کر سیدوں نے یہاں کی سیاست میں بھرپور حصہ لیا۔کشمیر کے اطراف و اکناف کا تبلیغی دورہ کرنے کے بعد سید تاج الدین ؒ نے محلہ شہاب الدین پورہ نوہٹہ (جو آج کل شہام پورہ کے نام سے جانا جاتا ہے)سرینگر میں قیام فرمایا جس کی آبادی ساٹھ ہزار گھر تھی چونکہ شہاب الدین پورہ اُس وقت دارالخلافہ تھا شاید مورخ اُس وقت کے سرینگر کی کل آبادی بتارہے ہیں .سید تاج الدین نے کشف و کرامات اور خوارق عادات سے کشمیر کے بادشاہ اور بڑے بڑے امراء کے دلوں کو مسخر کیا. خودسلطان شہاب الدین بھی بیعت کرکے حلقہ مریداں میں شامل ہوگئے اور دل و جاں سے خدمت گُزاری کے فرائض انجام دیتے رہے سلطان شہاب الدین نے اپنے محل کے نزدیک ایک عمدہ گھر آپ(رح) کے لئے تعمیر فرمایا اور ساتھ ہی ایک عمدہ خانقاہ تعمیر کرائی اور خانقاہ کے اخراجات کےلئے ایک جاگیر پرگنہ ناگام کی آمدنی(مالیہ) وقف کردیا.حضرت میر سید تاج الدین ہمدانیؒ نے اسی مدرسہ اسلامی یعنی خانقاہ میں باقاعدگی کے ساتھ درس و تدریس کا آغاز کردیا ۔اس طرح شاہ ہمدانؒ حضرت میر سید علی ہمدانی ؒ کی آمد سے پہلے ہی ان کے عزیز و اقارب حضرت میر تاج الدین ہمدانیؒ کی سربراہی میں کشمیر وارد ہوچکے تھے جس سےامیر کبیر حضرت میر سید علی ہمدانی ؒ کو تبلیغ دین میں آسانی محسوس ہوئی اور پھرشاہ ہمدان حضرت میر سید علی ہمدانیؒ کے ساتھ شانہ بشانہ دن رات تبلیغ دین اسلام کرتے رہیں۔ حضرت امیر کبیر میر سید ہمدانی ؒ کے آمد سے تبلیغ اسلام کاثمر آور درخت کچھ ہی برسوں میں قداور ہوا۔ یہاں قیام کرکے حضرت سید تاج الدین ہمدانیؒ لوگوں کو راہ ہداہت سے آگاہ کرنے کا فریضہ انجام دینے لگے اور لوگ ان سے فیاض یاب ہوئے۔
ان سادات کی قائم کردہ خانقاہوں میں سماج کے مختلف طبقوں کے لوگ آیا کرتے تھے ۔ سید تاج الدین کے ایماءپر سلطان شہاب الدین نے پہلی دفعہ کشمیر میں بہت سے مقامات پر درسگاہیں یا مدرسے قائم کئے اور ان سادات نے بھی یہاں خانقاہیں اور درسگاہیں قاٸم کیں۔جہاں پر قرآن ،حدیث اور فقہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ان کی جانب سماج کے مختلف طبقے خصوصاً غربا کھینچے چلے آتے تھے ۔اس سے یہ اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ یہ خانقاہیں اپنے اندر مقناطیسی قوت کے حامل تھیں کہا جاتا ہے کہ چک سلاطین کے دور میں یہ خانقاہ ویران ہوگئی
حضرت میر سید تاج الدین ہمدانیؒ نے وہاں پر ایک مسجد بھی تعمیر کی تھی جس کے آثار کچھ زمانہ پہلے تک باقی تھے اس وقت وہاں ایک مسجد حضرت میر سید تاج الدین ہمدانیؒ کے نام پراز سرنو تعمیر ہوئی ہے۔
آپ کی فہم و فراست اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے سلطان شہاب الدین سلطنت کے اہم کام آپ کے مشورے سے انجام دیتا تھا مقدمات کی سماعت، فیصلوں، ملکی لڑائیوں اور مصالحتوں میں آپ کو شامل رکھتا تھا۔ سلطان خود اعتراف کرتا تھا کہ حضرت میر سید تاج الدینؒ کی روحانیت و سیاست کی وجہ سے اس ملک کو سنبھالے رکھنے میں معاونت ملی. رفتہ رفتہ آپ کی شہرت دور دور تک ہوگئی اور ہزاروں لوگ ان کے حلقہ بگوش ہوگئے
حضرت میر سید تاج الدین ہمدانیؒ کی خدمات کا احاطہ کرنا نہایت مشکل ہے یہ وہی بُزرگ ہے جن کی رُوحانیت و مشقت نےکشمیر میں اسلام کے اُس درخت کو سیراب کردیا جو حضرت سید شرف الدینؒ المعروف بلبل صأب نے بُویا تھا اپنے خون سے اس کی آبیاری کی اور پندرہ سال دن رات تبلیغ دین اور دوسرے اہم کاموں میں صرف کئے.آپ اہلِ نورِ ایماں مجاہدِ اکبر اور بیدار محافظ تھے۔ اس میں شک نہیں کہ آپ اور آپ کے اصحابؒ نے کشمیر آکر دینِ اسلام کو روشن کردیا اور ان کی محنت,بے پناہ کوشش اور جدوجہد سے کشمیر میں مذہب حق کو کافی فروغ ملا اور کشمیریوں نے مذہبِ اسلام قبول کیا.حضرت میر سید تاج الدین ہمدانیؒ غیر معمولی ذہانت ، قابلیت، شجاعت، جواں مردی اور سیاسی بصیرت اور اپنی شان و شوکت کے لئے ضرب المثل تھے۔ بزرگ علماء، مورخین، شعراء آپ کےبارے میں رطب اللسان نظر آتے ہیں ملا احمد خطیب کشمیریؒ لکھتے ہیں:
سید تاج الدین قدس اللہ سرہ کان من اکابر الاولیاء واعاظم المرشدین صاحب الاحوال و المقامات والریاضات والمجاہدات والمکاشفات والمعانیات و التجلیات الاسرار البینتہ والانوار الروحانیہ .وھو عالم بعلوم الظاہر و عارف بمعارف الباطن ومن ارباب الکملات الصوریتہ والمعنویتہ ولہ فی اجد الفرستہ و کثیرۃ ولکرامتہ والجفانی والتوحید والکشف والنشور والمعرفتہ ولاولایتہ واھمتہ والعرۃ و تصرف العلوم
ملا احمد بن عبدالصبورؒ جناب حضرت سید تاج الدینؒ کی تعریف کرتے لکھتے ہیں:
در عبادت بود یکتایی زمان
شد بوصف حال اُو عاجز زبان
علامہ سید محمد متولیؒ یوں عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں مختصراً لکھ رہی ہوں:
پدر اُو بدست تاج الدین
ھدی اولیاء راہ یقین
سید و آل حیدر بودہ
سر بدرگاہ حق ھمی سودہ
اتنی صفات کے مالک حضرت میر سید تاج الدین ہمدانیؒ فارسی و عربی کے اُستاد زماں تھے، عربی و ادب پر گہری نظر تھی.
کہا جاتا ہے کہ اتنی مصروفیات کے باوجود بھی سید تاج الدینؒ تصانیف کے ساتھ شغل رکھتے تھے لیکن غالباً ان کے قلمی آثار حوادث کے نظر ہوگئے.
ایک وقت ایسا آیا کہ آپ پر بیماری کے آثار نظر آنے لگے بالآخر مالکِ حقیقی سے جا ملے اور اپنی ہی خانقاہ واقع شہاب الدین پورہ(نوہٹہ) میں آرام فرما ہوئے.
ہر سال 11 رجب المرجب کو آپ کی زیارت پر عُرس پاک منایا جاتا ہے جس میں ختمات و معظمات,درُود و اذکار، وعظ و تبلیغ اور مولود شریف کی مجلس ہوتی ہے جس میں عقیدت مند کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں