سری نگر:دنیا میں لوگوں کی آمد و رفت کے لئے ٹرانسپورٹ کے مختلف النوع تیز ترین اور آرام دہ وسائل کی آمد کے ساتھ ہی تانگہ سواری، جس کا شمار قدیم ترین ذرائع ٹرانسپورٹ میں ہوتا ہے، کا رواج و چلن بھی معدوم ہوتا جا رہا ہے۔لوگ وقت بچانے اور آرام سے سفر کرنے کے لئے جدید طرز کے ٹرانسپورٹ کے استعمال کو ہی ترجیح دیتے ہیں جس کے اپنے فائد بھی ہیں اور نقصانات بھی ہیں۔تاہم سڑکوں پر مختلف قسم کی گاڑیوں کی بھر مار کے باوصف بھی وادی کشمیر کے بعض علاقوں میں تانگے یا گھوڑا گاڑیاں نظر آ رہی ہیں جو جہاں کئی لوگوں کے لئے روزی روٹی کا وسیلہ ہیں وہیں بعض لوگوں کے شوق کو پورا کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔ان علاقوں میں سے ایک علاقہ جنوبی کشمیر کا سرنل اننت ناگ ہے جہاں مٹن چوک سے سرنل تک کا سفر طے کرنے کے لئے تانگہ سروس چل رہی ہے۔گلزار احمد وگے نامی ایک تانگہ بان، جس کا تانگہ بالی ووڈ فلم بجرنگی بھائی جان کی شوٹنگ کے دوران استعمال کیا گیا تھا، نے یو این آئی کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ میں گذشتہ لگ بھگ 35 برسوں سے تانگہ چلا رہا ہوں۔انہوں نے کہا: ‘میرے والد بھی یہی کام کرتے تھے میں بھی اسی کام سے اچھی طرح سے اپنے عیال کو پال رہا ہو۔ان کا کہنا تھا: ‘گرچہ لوگوں کے پاس سفر کرنے کے لئے ٹرانسپورٹ کے مختلف ذرائع ہیں لیکن پھر بھی کئی لوگ تانگوں میں ہی سفر کرنا پسند کرتے ہیں بلکہ تانگے میں سفر کرنا کچھ لوگوں کا شوق ہے’۔موصوف تانگہ بان نے کہا کہ مٹن چوک سے سرنل تک تانگہ سروس چل رہی ہے۔انہوں نے کہا: ‘اس مسافت کے لئے ہم دس روپیہ فی سواری سے کرایہ لیتے ہیں اچھا کام ہے اور ہم کروڑوں تو نہیں لیکن ہم اتنا کماتے ہیں کہ اپنا عیال پال سکیں۔ان کا کہنا تھا: ‘تانگہ سواری ایک محفوظ سواری ہے کیونکہ اس کو حادثہ ہونے کے بہت کم امکانات ہوتے ہیں اور آج نئے طرز کے تانگے بھی ہیں جو سواریوں کے لئے بھی آرام دہ ہیں۔گلزار احمد نے کہا کہ ایک گھوڑا گاڑی یا تانگہ کم سے کم دو لاکھ میں تیار ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ میرا تانگہ پہلگام میں بالی ووڈ فلم بجرنگی بھائی جان کی شوٹنگ کے دوران استعمال کیا گیا۔ان کا کہنا تھا: ‘اس فلم کی شوٹنگ کے دوران میں وہاں پانچ دن رہا اور اچھا کام کیا۔موصوف تانگہ بان نے کہا کہ حکومت نے ہمیں ایک بار تانگوں کے بدلے گاڑیاں خریدنے کے لئے بینک قرضہ دینے کی بات کی تھی لیکن ہم نے بغیر سود کے قرضہ کا مطالبہ کیا جو انہوں نے نہیں مانا تو ہم اسی پیشے سے جڑے رہے۔انہوں نے کہا: ‘ایک بزرگ نے مجھے نصیحت کی کہ بیٹا یہ پیشہ ذریعہ روزی روٹی ہی نہیں بلکہ کشمیر کی ثقافت کا ایک حصہ بھی ہے اس کو کبھی چھوڑنا نہیں’۔ان کا ماننا ہے کہ حکومت چاہے تو تانگہ سواری میں ہی بہتری لا سکتی ہے اور اس کو مسافروں کے تقاضوں کے مطابق بنایا جا سکتا ہے جس سے نہ صرف یہ پیشہ زندہ رہے گا بلکہ اس سے وابستہ لوگوں کی آمدنی میں بھی مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔غلام رسول نامی ایک بزرگ نے کہا کہ تانگہ سواری کو شاہی سواری کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک زمانے میں یہاں مہاراجوں کی سواری تھی اور لوگوں کی آمد و رفت کا ایک موثر ذریعہ بھ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ موٹر گاڑیوں کی آمد کے ساتھ اس کا رواج روبہ زول ہے لیکن لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ تانگہ میں سفر کیا کریں تاکہ ایک تو یہ ثقافت زندہ رہے دوسرا اس کے ساتھ جڑے لوگوں کی روزی روٹی کی سبیل بھی ہوسکے۔یو این آئی