تحریر:-ہلال بخاری
وہ ایک ننھی سی جان تھی جسے اگر کوئی پوچھتا کہ آپکو اس دنیا میں سب سے زیادہ کون اچھا لگتا ہے تو وہ بڑے معصومانہ انداز میں جواب دیتی،
"میرے بابا جان اور کون”
وہ اپنے باپ سے بے انتہا محبت کرتی تھی۔ اس کے چلے جانے سے لے کر اس کے آجانے تک بے صبری سے اسکا انتظار کرتی۔ اس کو یقین تھا کہ اس کے بابا ہر بھلا سے اسکی حفاظت کریں گے۔ اسی لئے وہ اسکے سینے سے تب تک چپکی رہتی جب تک وہ ڈانٹ کے اسے الگ نہ کرتا۔
ایک دن اس معصوم کو اندازہ ہوا کہ بابا جان گھر سے پریشانی کی حالت میں کہیں جا رہے ہیں۔ اس کو معلوم تھا کہ آج پھر امی بابا سے الجھ پڑی ہوگی۔ وہ ان دونوں کی لڑائی سے کافی پریشان تھی مگر اپنے بابا کے لئے زیادہ پریشان تھی۔ اسکا دکھ اس ننھی جان کے برداشت سے باہر تھا۔ اس نے آواز لگائی،
"بابا رک جاؤ مت جاؤ”
جب باپ نے غصے کی حالت میں کوئی جواب نہ دیا اور ننھی کو احساس ہوا کہ وہ نہیں رکیں گے تو وہ اس کے پیچھے دوڑ کے بولی،
"بابا رکو میں بھی آتی ہوں”
باپ جو ایک فاصلے پر اس اور دور جا رہا تھا نے نفرت بھرے لہجے میں کہا،
"دفا جاؤ ، میرے ساتھ نہیں آنا”
جب اسے لگا کہ بابا رکنے والے نہیں تو اس نے چالاکی سے اسے روکنے کے لئے کہا،
” رکو بابا مجھے آپکو ایک ضروری بات بولنی ہے”
وہ رک گیا اور غصے سے کہا جلدی بولو۔ تب تک وہ اس کے قریب آچکی تھی۔
اس نے بہانا بنا کر کہا،
” مجھے پانچ روپے دے دو”
بابا نے جلدی میں پانچ روپے نکال کر اس کی طرف پھینک دیے۔ بیٹی نے پیسے اٹھائے مگر بابا کے پیچھے دوڑتی رہی۔ اس کے بابا کو بہت غصّہ آیا اور اس نے چلا کر کہا،
"دفا ہوجا ورنہ میں تیری ماں کے بدلے تیرا گلا گھونٹ دوں گا”
اس معصوم نے سوچا یہ عام سی دھمکی ہے جیسی بابا اکثر دیتے ہیں۔ اس کا باپ آگے بڑھتا رہا اور وہ بھی اسکے پیچھے دوڑتی رہی جب تک کہ اس نے خود کو ایک سنسان علاقے میں پایا۔ اس کے بابا کہیں دکھائی نہ دے رہے تھے۔ وہ آس پاس کے ماحول کو دیکھ کر سہم گئی مگر اس کو یقین تھا کہ بابا کہیں قریب ہی ہونگے اور اس کو اطمینان ہوا۔ وہ اس کی تلاش کرنے لگی۔ بہت ذیادہ چلنے کے سبب اسکے پاؤں دکھنے لگے مگر وہ تلاش کرتی رہی۔ پھر اس نے دیکھا کہ اسکا بابا ایک گہرے نالے میں جیسے سو رہا ہے۔ جب وہ اس کے قریب آچکی تو اس کو کچھ عجیب سی بدبو کا احساس ہوا۔ اس کو لگا کہ بابا نے کوئی چیز پی لی ہے جس کی وجہ سے وہ جیسے بے ہوش ہو کر گر پڑا ہے۔ وہ اس کے لئے اور متفکر ہوئی اور اس کے قریب جاکر اسے جگانے لگی۔ اس کو کیا معلوم تھا کہ وہ اپنی موت کو جگا رہی ہے۔ بابا نے جب اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں سرخ تھی اور اس کا چہرہ وحشتناک نظر آ رہا تھا۔ وہ بے چارگی کی حالت میں سہم کے رہ گئی۔
بابا جو اب ایک خونخوار درندے کی طرح وحشتناک تھا نے غصے سے پوچھا،
"تو یہاں کیوں آئی دفہ ہو جا یہاں سے”
وہ معصوم یہ گرجتی آواز سن کر لرز گئی۔ اس کو محسوس ہوا جیسے یہ اسکا بابا نہیں کوئی وحشی درندہ ہے لیکن اس نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر کہا ،
” بابا چلو گھر چلتے ہیں”
مگر بابا تو اب ایک خونخوار درندہ بن چکا تھا۔ اس نے اس معصوم جان کے قریب آکر اس کا گلا پکڑ لیا ۔ اس مظلوم کی سانس منقطع ہو کر رہ گئی۔ وہ خود کو اس وحشی جانور سے آزاد کرنے کے لئے ایسے تڑپنے لگی جیسے کوئی پرندہ کسی کتے کے منہ سے آزاد ہونے کے لئے پھڑپھڑانے لگتا ہے۔ اس معصوم کی پکار اس کے ننھے سے حلق میں اٹک کر رہ گئی۔ وہ کہتی،
” بابا میں تو آپکی اپنی بیٹی ہوں اور میری خطا بھی کیا ہے؟ میں نے کب آپکا برا چاہا ہے۔ ؟
مگر یہ سوال پوچھنے سے پہلے ہی وہ اس ظالم دنیا کے لئے خود ایک سوال بن کر رہ گئی۔ اس ظالم نے اپنی درندگی کی تمام طاقت اس معصوم کو مٹانے کے واسطے صرف کردی۔ دنیا ماتم کناں کیوں نہ ہو اس سے ایک معصوم جان کو چھینا گیا اور اس میں ایک اور ظالم کا اضافہ ہوا۔
ہلال بخاری
ہردوشورہ کنزر