وادی کشمیر اپنی منفرد پہچان کی وجہ سے پوری دنیا میں معروف و مشہور ہے۔ جہاں ایک طرف موسمی صورتحال اور یہاں کے سرد و گرم موسمی حالات کی وجہ سے اسے جنت بے نظیر کا خطاب دیا گیا ہے وہیں دوسری جانب یہاں کی مقامی ہینڈی کرافٹ صنعت کی وجہ سے کشمیر کو دنیا بھر میں وہ مقام عطا ہوا ہے جس کیلئے بیرون دنیا کے لوگوں نے متعدد مقامات پر اس کی گواہی تاریخ میں دی ہے۔ آج بھی بیرون ریاست سے باہر کے لوگ جب کشمیر کی سیر و تفریح کرنے کی غرض یہ یہاں آتے ہیں تو وہ لازماً یہاں کے ہنر مندوں کی بنائی ہوئی اشیا کو اپنے ساتھ بطور تحفہ لیکر فخر محسوس کرتے ہیں۔یہاں کی قدیم دستکاری اور ہنرمندی نے عالمی سطح پر اپنی ایک منفرد شان قائم کی ہوئی ہے جس کی دنیا میں کوئی دوسرے نظیر نہیں مل سکتی۔ یہاں کی پیپر ماشی، قالین بافی، نمدہ سازی وغیرہ کی ہر طرف دھوم ہے اور ان ہنروں سے تیار کردہ چیزیں تحائف کے بطور استعمال میں لائی جاتی تھی لیکن اسے بدقسمتی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ بعض لاپرواہی کی وجہ سے دوسرے غیر پیشہ ورانہ افراد نے اس فن پر اپنا منحوس سایہ ڈال کر اس سے جڑے لاکھوں افراد کی روزی روٹی پر ڈھاکہ ڈالا جن کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے یہ دستکاری روبہ زوال ہورہی ہے۔ اگر حقیقی دستکاروںاور ہنروں کو اب بھی بچانے میں غفلت شعاری کا مظاہرہ کیا گیا تو یہ اہم سرمایہ دوسروں کے ہاتھ میں آکر کشمیریوں کی حقیقی شناخت بھی مٹ جائیگی کیوں کہ عالمی سطح پر کشمیری اپنی وراثتی دستکاری اور ہنروں سے پہنچانے جاتے ہیں۔ وادی میں قالین بافی کا کاروباری ختم ہونے کی دہلیز پر ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے تجربہ کار دستکار زمین سے اُٹھ کر آسمان پر پہنچ گئے تھے لیکن اپنی کوتاہی کی وجہ سے وہ اب زوال پذیر ہوچکے ہیں۔اس کے علاوہ یہاں کی پیپر ماشی جو پوری دنیا میں مشہور تھی لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس دستکاری کو دوسروں نے اپنے ہاتھ میں لے کر کشمیری دستکاروں کے حق پر شب و خون مارنا شروع کردیا تھا اور اس کے منفی نتائج برآمد ہوگئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پیداوار اور ہنر، دستکاری پر دوسروں کو قابض بناکر یہاں کے تجربہ کار دستکاروں کو محتاج بنایا جارہا ہے۔ہمارے بازاروں میں نظر دوڑائیے تو یہاں کے پیشہ وار حجام، لوہار، ترکھان اور گلکار کہیں نظر نہیں آتے ہیں جبکہ ہر جگہ پر غیر مقامی افراد نے یہاں ان تمام کاموں پر قبضہ جمایا ہے۔ اب یہاں کے یہ پیشہ وار افراد اپنے کام میں شرم محسوس کرتے ہیں یہی بنیادی وجہ ہے کہ یہاں دن بہ دن بیروزگاری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اب چونکہ ان بیرونی پیشہ وروں نے یہاں سٹنڈرار قائم کرکے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اس طرح سے کشمیری پیشہ ور افراد اپنے کام سے بھی ہاتھ دھوبیٹھے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ تجربہ کار پیشہ ور افراد، دستکارروں اور ہنرمندوں کا حال ان کی بیروزگاری کے سبب فاقہ کشی پر اُترآئے ہیں اور وہ نان شبینہ کے محتاج ہوئے ہیں۔ سرکار اور کشمیریوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ اگر اسی طرح دوسروں کا قبضہ ان وراثتی اور پیشہ ورانہ دستکاریوں اور ہنرروں پر بدستور رہا تو یہاں کی اقتصادی حالت دن بہ دن ابتر ہوجائیگی اور نئی نسل کیلئے اس طرح کی کارروائیاں برآگراں ثابت ہوں گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی طرف فوری طور توجہ مبذول کرکے یہاں کی دستکاری، ہنر اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو اُجاگر کیا جائے اور فروغ دیا جائے۔