محمد یاسین ماگرے(ڈوڈہ، جموں)
یوں تو کشمیر ایک خوبصورت مقام ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ جموں صوبے کے چناب ویلی میں بھی بہت سارے مقامات ایسے ہیں جوسیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات قلمبند کرنا ضروری ہے کہ چناب ویلی کے بیس فیصد لوگ پہاڑی علاقوں میں کاروبار کرتے ہیں۔جن کے کاروبار کو کامیاب بنانے میں سب سے زیادہ سیاحت کا کردارہوتا ہے۔ایسے میں پہاڑی علاقوں کے وہ تمام کاروبار بند ہونگے اگر ان خوبصورت جگہوں کو سیاحتی نقشے پر نہیں لایا گیا۔ اس سلسلے میں سماجی کارکن ندیم شریف نیاز کہتے ہیں کہ یہاں کے سبزو پھولوں سے لہلہاتی حسین وجمیل وادی، پہاڑوں کی خوبصورتی میں لپٹی پُرکشش جھیلیں، موسموں کے دلکش نظارے اورپھولوں وپھلوں سی نعمتیں اس وادی کوجنت کہنے پر مجبور کرتی ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جموں و کشمیراپنی قدرتی خوبصورتی اوردلکش نظاروں کی وجہ سے پوری دنیامیں منفردمقام اورحیثیت رکھتی ہے۔ چناب ویلی کے بیس سے زائد فیصد لوگ پہاڑی علاقوں میں اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ جس کو کامیاب بنانے میں صرف سیاحت ہی اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جبکہ پچھلے دو سے تین سال میں پہاڑی علاقوں میں کاروبار کرنے والے کاروباری شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ موسم گرما آتے ہی پھل و پھول پھیلنے لگتے ہیں۔ چاروں طرف سے خوبصورت ہی خوبصورتی نظر آتی ہے۔ گرمی کے اس موسم میں سیر و تفریح کے مقامات پر کچھ لوگ اپنے گھوڑے لے کر وہاں پہنچنتے ہیں تاکہ سیر و تفریح کرنے والے لوگوں کو ان پر سوار کر کے ان سے کچھ پیسے حاصل کر اپنا روزگار بحال رکھ سکیں۔ جس سے وہ اپنے گھر کا خرچ پورا کر سکیں ۔ جبکہ گذشتہ تین سے چارسال کے ایام میں کوئی بھی سیر و تفریح کے لیے تیار نہیں تھا اور حکومت کی طرف سے بھی کچھ گائیڈ لائن نہیں دی گئی تھی۔
خطہ چناب کے سماجی کارکن فاروق احمد کا کہنا ہے کہ واقعی چناب ویلی قدرت کے حسن سے مالا مال ہے۔ خود قدرت نے ہی سیاحوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے انتظامات کئے ہیں۔صرف انہیں یہاں پہنچانے کے لیے گاڑیوں اور یہاں رکنے کے لیے کسی اہم مقامات کی ضرورت ہے۔جبکہ یہاں گرمیوں میں بہت سارے لوگ پیدل ہی پہنچ جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہاں پردکانوں کا بھی بندوبست کیا جا سکتا ہے۔وہیں گجر بکروال بھی یہاں پر اپنے مال مویشی لے کر آتے ہیں۔ایسے میں اگر یہاں پر سیاحوں کے رکنے کے لئے بہترانتظامات کیے جاتے تو شاید یہاں کے حالات بدل سکتے ہیں۔ جب بھی انسان کسی مشکل یا دشواری کا شکار ہوتا ہے تو اسے دل کو بہلانے کے لئے اور اپنے دماغ کو تازہ رکھنے کے لئے کچھ تدابیر اختیار کرنی پڑتی ہے۔ جب انسان زندگی سے الجھا ہوا ہوتا ہے تو وہ اپنے آپکو کسی ایسی جگہ لے جانا چاہتا ہے جہاں دل و دماغ کو تازگی ملے اور بدن کو سکون ملے۔ایسے وقت میں یہی وہ مقام ہے جہاں وہ خود میں سکون پا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیکل نظریہ سے بھی انسان کو ایسے مقامات پر زیادہ سے زیادہ قیام کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔بھدرواہ تعلق رکھنے والے سماجی کارکن چودھری اویس کہتے ہیں کہ اگرچہ جموں کشمیرکی پوری دنیا میں اس کی خوبصورتی کے لئے چر چے ہوتے ہیں۔جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان بسنے والا خطہ چناب بھی وادی کشمیر کی طرح انتہائی خوبصورت ہے۔ موسم بہار آتے ہی یہاں کے بہت سارے طبقے بالائی علاقوں میں اپنے مال مویشی کو لیکر جاتے ہیں اور کئی دنوں کا پیدل سفر طے کرنے کے بعد اپنی منزل مقصود تک پہنچتے ہیں۔ ان اونچی پہاڑیوں پر رہنے والے لوگوں کو قدرتی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کا خوب موقع ملتا ہے۔ٹھنڈا پانی اور تازہ ہوائیں ان لوگوں کا مقدر ہوتی ہیں۔ضلع ڈوڈہ بھدرواہ بھلیسہ کے کرلہ ٹاپ جتروڑ کاہرہ کا پورا علاقہ خوبصورتی میں اپنا ثانی رکھتاہے۔ یہا ں کے خوبصورت علاقے ملحقہ مقامات پر مشتمل ہیں۔ان علاقوں کی خوبصورتی بناوٹی نہیں بلکہ یہ علاقے قدرتی خوبصورتی کے مالک ہیں۔
چناب ویلی کی خوبصورتی اپنی نظیر آپ ہے۔لیکن محکمہ سیاحت کا اسطرف کوئی بھی دھیان نہیں ہے اور یہ خوبصورتی پوری دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔خطہ چناب کے کئی نوجوانوں افسوس کا اظہار کرتے ہوئی کہتے ہیں کہ آج تک جتنی بھی سیاسی جماعتیں اقتدار میں آئیں ہیں سب نے بڑے بڑے دعوے کیے تھے کہ سرکار بننے کے فورا ًبعد ہی خطہ چناب و ڈوڈہ کو سیاحتی مقام کے نقشے میں ضرور تبدیلی لائیں گے، لیکن آج تک سرکار بننے کے بعد کسی بھی حکومت نے اپنے اس وعدے کو پورا نہیں کیا۔ اگر خطہ چناب کے متذکرہ بالا علاقوں کو نقشہ پہ لائے جائے گا تو کئی بے روزگار نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔ یہ علاقے بھی کشمیر سے کم نہیں ہیں۔ جہاں بڑے بڑیدور سے سیاح لطف اندوز ہونے کے لئے آتے ہیں۔ویسی ہی خطہ چناب میں بھی باہر سے لوگ لطف اندوز ہونے کے لئے یہاں آئیگے۔ کتنی سر کاریں آئی اور کتنی بدل گئیں مگر خطہ چناب ویسا کا ویسا ہی رہ گیا۔ آخر کب خطہ چناب کی خوبصورت مقامات کو سیاحتی نقشے پر لایا جائے گا یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔؟ ایک مقامی طالبہ رابیہ بانوں کہتی ہیں کہ خطہ چناب میں جتنے بھی سیاحتی مقامات ہیں، انتہائی خوبصورت ہیں وہ کسی بھی اعتبارسے کشمیر سے کم نہیں ہیں مگر رابطہ سڑک اور بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہاں سیاح نہیں آسکتے ہیں کیو نکہ یہاں نہ رہنے کی سہولیات ہے اور نہ ہی کھانے پینے کے سامان یہاں دستیاب ہیں۔ اگر یہ سہولیات ان سیاحتی مقامات پر دستیاب ہوتی تو سیاحوں کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ اگر مرکزی سرکار ان علاقوں کی طرف توجہ دیتی تو یہاں پڑھے لکھے بے روز گاروں کو بھی روز گار فراہم ہوتا۔
خطہ چناب میں ایک خوبصورت مقام بھدرواہ بھی آتا ہے جو چھوٹا کشمیر سے جانا جاتا ہے۔ بھدرواہ میں بھی ایسے خوبصورت مقام ہیں جو حکومت کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ فش پانڈ بھدرواہ خستہ حالی کا شکار ہے۔ جائی ویلی بھدرواہ، بال پدری، جہاں رہائش کے لئے انتظام تو ہے لیکن فون ٹاورز کا کوئی بھی انتظام نہیں ہے۔ جس سے سیاحوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت دیگراضلاع کے سیاحتی مقامات کے ساتھ ڈوڈہ کے خوبصورت اورصحت افزاسیاحتی مقامات کو سیاحتی نقشے لائے تاکہ مقامی نوجوانوں کیلئے روزگارکے مواقعے اورسیاحوں کیلئے بہترسہولیات کے انتظامات ممکن ہو سکے۔(چرخہ فیچرس)