سیّد انیس الحق(پونچھ)
جیسے ہی جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا کہ وہ طلبا جو دور دراز کے قصبوں اور شہروں میں امتحانی مراکز کی الاٹمنٹ کی وجہ سے حال ہی میں منعقدہ کامن یونیورسٹی انٹرینس ٹیسٹ (CUET) 2023 میں شرکت نہیں کرسکے تھے، انہیں بھی ان کی پسند کے مضامین اور کالج میں داخلہ لینے کا موقع دیا جائے گا۔اس اعلان کے سنتے ہی جموں و کشمیر کے طلاب میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ واضح رہے کہ سی یو ای ٹی (CUET) طلباء کو ملک بھر کی کسی بھی مرکزی یونیورسٹی اور دیگر میں داخلہ لینے کے لیے سنگل ونڈو کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جبکہ اس بار نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کو تعلیمی سیشن 2022-23 کے لیے تمام سنٹرل یونیورسٹیوں کے داخلہ ٹیسٹ کے انعقاد کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اوراین ٹی اے کی جانب سے با ضابطہ طور پر یہ امتحان کروائے بھی جارہے۔ لیکن پر جموں و کشمیر کے طلباء، والدین سمیت کئی دیگر سیاسی و سماجی تنظیموں نے جم کر نا راضگی کا اظہار کیا ہے۔ کیونکہ جموں و کشمیر میں یوجی سطح پر داخلہ لینے والے طلباء کیلئے پہلی بار CUETکا امتحان پاس کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ جس کا مقصد یہ ہے جو بھی طالب علم بارھویں کلاس پاس کر کے کالج کیلئے داخلہ لینا چاہئے گا اس سے پہلے CUETکے امتحان میں بیٹھنا پڑے گا۔ وہیں اس سلسلہ کو لیکر ان دنوں جموں و کشمیر کے طلاب کافی پریشانیوں سے دو چار ہو رہے تھے کیونکہ این ٹی اے کی جانب سے ایڈمیٹ کارڈ کو جاری کرنے میں تاخیراورر بالخصوص یو ٹی کے باہرامتحان مراکز قائم کرنے کو لیکر جموں و کشمیر یوٹی کے طلبا و طالبات میں کا فی بے چینی پائی جا رہی تھی۔
حالانکہ اس سلسلہ میں امتحانات کا سلسلہ مسلسل جاری بھی ہے اور بہت سارے طلباء نے یہ امتحان دیا بھی ہے۔ لیکن باوجود اس کے طلباء اور والدین کے علاوہ مختلف سیاسی و سماجی تنظیمیوں نے جب طلباء کی در بدری اور پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے سرکار کے اس فیصلہ پر خوب تنقید کی تو یوٹی کی جانب سے 13جون کو باضابطہ طور پر ایک اعلان نکل کر سامنے آیا جس میں حکومت نے یہ صاف کیا کہ وہ طلبا جو دور دراز کے قصبوں اور شہروں میں امتحانی مراکز کی الاٹمنٹ کی وجہ سے حال ہی میں منعقدہ کامن یونیورسٹی انٹری ٹیسٹ (CUET) 2023 میں شرکت نہیں کرسکے تھے، ان کو ان کی پسند کے مضامین اور کالج میں داخلہ لینے کا موقع دیا جائے گا۔اس سلسلہ میں پرنسپل سکریٹری، تعلیم، آلوک کمار نے یہ جانکاری دیتے ہوئے کہا کہ CUET، NEP 2020 کے مطابق، نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (NTA) کی طرف سے منعقد کیا جانے والا ایک معیاری داخلہ ٹیسٹ ہے جس کا مقصد انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کورسز کے داخلے کے عمل کو ہموار کرنا ہے۔وہیں اس سلسلہ میں جاری حکومتی بیان میں یہ صاف کیا گیا ہے کہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے ذریعہ پیش کردہ اس ٹیسٹ کا مقصد تمام امیدواروں کے لیے ایک منصفانہ اور مساوی تشخیصی پلیٹ فارم فراہم کرتے ہوئے درخواست دہندگان کے علم، اہلیت اور مہارت کا اندازہ لگانا تھا۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پچھلے سال، CUET میں 200 سے زیادہ یونیورسٹیوں بشمول 47 مرکزی یونیورسٹیوں نے حصہ لیا۔جبکہ اس سال جموں و کشمیر کے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے قومی تعلیمی پالیسی (NEP) 2020 میں بیان کردہ رہنما خطوط پر عمل کرتے ہوئے تعلیمی سیشن 2023 کے لیے کامن یونیورسٹی انٹری ٹیسٹ (CUET) کے نفاذ کے لیے سخت کوششیں کی، اور حکومت کی شمولیت کے عزم کے تحت CUET (UG) 2023 کے لیے جموں و کشمیر کے UT سے کل 87309 منفرد امیدواروں کو رجسٹر کیا گیا تھا۔جبکہ امتحانی مراکز کو اور امتحان کی تاریخوں کا اعلان نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی نے کیا تھا۔
تاہم، کچھ طلباء کو جموں و کشمیر کے UT سے باہر مراکز الاٹ کیے گئے تھے۔لیکن بعد ازاں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی مداخلت کے بعد کشمیر میں طے شدہ G20 ایونٹ کے وقت اس کے خلاف عجیب و غریب صورتحال اور ناراضگی کا نوٹس لیتے ہوئے، NTA نے جموں و کشمیر کے طلباء کے لیے CUET (UG) کے امتحان کو ملتوی کر دیاتھا۔ واضح رہے یہ عمل صرف جموں و کشمیر کے طلباء کے لیے تھا اور دوبارہ امتحان کے انعقاد کے لیے نئی تاریخیں جاری کی گئی۔ مزید برآں، جموں و کشمیر کے UT کے باہر واقع امتحانی مراکز میں CUET (UG) 2023 میں شرکت کے دوران طلباء کو درپیش سفری اور لاجسٹک چیلنجوں کو دیکھتے ہوئے اور اس سلسلے میں طلباء برادری کے خدشات کو دور کرتے ہوئے، پرنسپل سکریٹری ہائر ایجوکیشن نے یقین دلایا کہ ایسے امیدواروں کو 12 ویں جماعت کے امتحان میں میرٹ کی بنیاد پر UT کے مختلف ڈگری کالجوں میں انڈر گریجویٹ پروگراموں میں داخلے کے لیے کافی موقع فراہم کیا جائے گا۔ اس کے بعد جموں و کشمیر کے طلباء کی جان میں جان آئی اور انہیں راحت ملی۔کیونکہ یو ٹی کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے ہزاروں بچے اس امتحان میں شرکت ہی نہیں کر سکے تھے جس کی کئی ساری وجوہات رہی ہوگی لیکن سب سے بڑی وجہ یوٹی کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں رہنے والے طلباء جہاں ایک طرف ان امتحانی مراکز تک پہنچ ہی نہیں پا رہے تھے وہیں دوسری طرف اتنے دور امتحان دینے جانے کے لئے کئی والدین کے پاس اتنے خرچ نہیں تھا کہ وہ اپنے بچوں کویہ امتحان دلوا سکیں۔وہیں اسی سلسلہ میں جب طلباء سے جاننے کوشش کی گئی تو ان کا کہنا تھاکہ امتحان مراکز دور ہونے اور وقت پر ایڈمیٹ کارڈ نہ آنے کی وجہ سے امتحان میں شامل نہیں ہوسکے۔ جبکہ کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ گھر میں اتنی آمدنی نہیں کہ اتنے دور جا کر امتحان دے سکیں۔
اسی سلسلہ میں سہیل کاظمی جنہوں نے اسی سیشن میں بارویں بورڈ کا امتحان نہ صرف پاس کیا ہے بلکہ بہت ہی اچھے نمبرات کے ساتھ ڈسٹنیکشن مارکس حاصل کئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پہلے تو انہیں کئی دنوں تک اڈمیت کارڈ ہی نہیں ملا جب امتحان سے غالباً ایک دن قبل این ٹی اے کی ویب سائٹ پر انہیں اپنا اڈمیٹ کارڈ ملا تو ڈاؤن لوڈ کرنے پر پتہ چلا کہ اس کا امتحان پنجاب کے امرتسر کے کسی امتحان مراکز میں پڑا ہے۔ جبکہ سہیل سرحدی ضلع پونچھ کے رہنے والے ہیں اور پونچھ سے 250کلو میٹر کی مسافت طے کرجموں اور پھر وہاں سے ایک دن میں پنجاب کے امرتسر پہنچنا ان کیلئے آسان نہیں تھا۔کوشش کرنے کے باجود بھی کم وقت اور زیادہ اخراجات کی وجہ سے سہیل اس بار CUETکے امتحان میں شامل نہیں ہو پائے ۔ وہیں ان کی والدہ کا کہنا تھا اب اسے ایگنو(IGNOU)میں داخلہ کروا ئیں گے اور گھر پر ہی پڑھے گا۔ بہر حال بارویں میں ڈسٹنشن حاصل کرنے والا طالب علم اگر یو جی کی تعلیم ریگولر نہیں لے پاتا تو یقینا اس کا مستقبل کیساہوگا؟وہیں ایک طالب علم کے والد محمد شاہ نے امتحان کے اس پورے عمل پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بیٹے کا سنٹر بھی امرتسر دیا گیا تھا۔ جہاں انہیں کافی پریشانیوں کا سامنا رہا تھا۔ کھانے پینے اور رہنے کی دقتیں بھی رہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں میرے بیٹے کے دوسرے پیپر میں تین روز کا وقفہ دیا گیا تھا۔ جس کیلئے ہمیں مزید تین روز تک امرتسر میں ہی رہ کر انتظار کرنا پڑرہا تھا۔ اسی سلسلہ میں ایک اور شخص نے بتایا کہ یہ امتحان دلانے کے چکر میں اس کے دس پندرہ ہزار روپے کا خرچ ہو گئے۔وہیں ایک اور والد شفاقت حسین جن کی چھ بٹیاں ہیں۔ خود بے روزگار ہیں بچیوں کو تعلیم یافتہ بنانے کیلئے کو ئی کسر باقی نہیں چھوڑتے،ان کی ایک بیٹی چھتیس گڑھ میں نرسنگ کی تعلیم حاصل کر رہی ہے وہیں بارویں کا امتحان ڈسٹنشن کے ساتھ پاس کرنے والی ان کی بچی کو بھی CUET ٹست کیلئے باہر جانا پڑا جس پر کافی خرچ آیا۔ ان کے علاوہ منڈی علاقہ کے ایک سماجی کارکن ریاض ملک نے بھی بتایا کہ ان کے ساتھ اپنی بچی کے علاوہ منڈی سے سات بچیاں اور بھی امتحان دینے جموں آئی تھی۔ ریاض ملک کہتے ہیں کہ ان کی بچی کا امتحان جموں میں ہی تھا جس کے لئے پانچ دن جموں میں رکنا پڑا ایک نہیں بلکہ دو بار امتحان کیلئے پونچھ سے جموں کا سفر کرنا پڑا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس امتحان کہ چکر میں میرے 12 سے 13ہزار روپے خرچ ہو گئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر یو ٹی کے باہر کسی کالج میں داخلہ ملتا بھی ہے وہاں بھیجنا اور تعلیم دلوانا میرے لئے مشکل ہے بلکہ ان سب والدین کی بھی اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جموں کے بھی کسی کالج تک بھیج سکیں۔
بہر کیف اس میں کوئی شک کی بات نہیں CUETامتحانات کا مسئلہ جموں و کشمیر کے طلباء اور والدین کیلئے کافی پریشان کن تھا جس پر والدین اور طلباء برادری میں کافی ناراضگی پا ئی جا رہی تھی۔ وہیں 13 جون کے اعلانات کے بعد طلباء اور والدین میں خوشی پا ئی جا رہی ہے اور جموں و کشمیر انتظامیہ کے اس فیصلے کی ہر طرف تعریفیں ہو رہی ہیں کیونکہ اگر ایسا ہو جا تا تو ہزاروں طلباء جو اس امتحان میں بیٹھ نہیں پائے تھے وہ ڈارپ آؤٹ ہو جاتے اور یوٹی میں ڈراپ آؤٹ گراف میں مزید اضافہ ہو جاتا تاہم جموں و کشمیر انتظامیہ کا یہ فیصلہ جہاں گوڈ گورننس کی تازہ مثال ہے وہیں طلباء برادری کیلئے خوش آئند ہے۔ (چرخہ فیچرس)