کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ انسان کا ماضی ہی بہتر ادوار میں سے ہوتا ہے کیوں کہ جتنا جتنا انسان اس مادی دنیا میں وقت طے کرتا ہے اُتنا ہی اُس کے اندر تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ ان تبدیلیوں میں بعض انسان اور سماج کیلئے مفید ثابت ہوتی ہے جبکہ بعض پورے سماجی تانے بانے کیلئے سم قاتل۔ وادی کشمیر جو کہ پیر وأر کے نام سے جانی جاتی تھی، اب اس کا سماجی ڈھانچہ یکسر تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔ اس تبدیلی کے نتیجہ میں یہاں ہر ایک باشندہ بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوچکا ہے۔ سماج کے اندر کئی ساری چیزیں ایسی اُبھر چکی ہیں جن کی وجہ سے سماج کا اخلاقی نظام پوری طرح سے بگڑ کر رہ گیا ہے۔ فرد، گھر، خاندان، سماج کیساتھ ساتھ پورا معاشرہ اس تبدیلی کی وجہ سے انتشار اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ بڑے بزرگوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت، معلوم اور نامعلوم کا احترام ایسے اطوار تھے جن کیلئے کشمیری سماج دنیا بھر میں معروف و مشہور تھا۔ کچھ برس قبل انسان یہ گمان بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی کم عمر نوجوان بڑے بزرگ کی حقارت کیسے کرسکتا ہے؟ یہ بھی ناممکنات میں سے تھا کہ قوم کی نئی نسل صحیح طرز عمل کو چھوڑ کر غلط راہوں پر اپنا وقت صرف کرے۔ بہر حال امتداد زمانہ کیساتھ ساتھ ہماری آنکھوں سے ایسے بھی مناظر دیکھے جن کا کبھی وہم و گمان بھی نہیںکیا جاسکتا تھا۔وادی کشمیر کی موجودہ صورتحال کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل عیاں ہوتی ہے کہ قوم کے اندر اخلاقی عنصر رفتہ رفتہ کم ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے دن بہ دن سماج میں نت نئے مسائل جنم لے رہے ہیں ۔ ہماری نوجوان نسل کا ایک بڑا حصہ نشہ آور اشیاء کے کاروبار میں ملوث ہوچکی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کی بات کی جائے تو جموں کشمیر میں فی الوقت دس لاکھ کے قریب نوجوان نشہ کی لت میں مبتلا ہیں جو کہ ایک تشویش کن معاملہ ہے۔ آئے روز پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی جانب سے نشہ کی لت میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے جن کی تحویل سے بھاری مقدار میں ممنوعہ شئے ضبط کی جاتی ہے۔ جموں کشمیر پولیس اگرچہ اس معاملہ میں اپنی ذمہ داریاں احسن طور پر انجام دے رہی ہیں لیکن یہ مسئلہ صرف پولیس پر تکیہ کرنے سے حل نہیں ہوسکتا ہے بلکہ اس میں عام لوگوں کو بھی آگے آکر اپنا رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ہر گائوں، دیہات اور شہری علاقے میں یہ لعنت سرایت کرچکی ہے۔ ہر گھر میں نشہ پہنچ چکا ہے۔ خدانخواستہ اگر ابھی بھی لوگ اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنے کی کوشش کریں گے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آنیوالا کل دردناک منظر کیساتھ وارد ہوگا جس میں پھر بچنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران وادی کشمیر کے مختلف حصوں سے ایسی خبریں موصول ہوئیں جن کے مطابق کم عمر نوجوانوں نے مختلف ذرائع سے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا۔تحقیقی اداروں کے مطابق ان نوجوانوں نے صر ف اس وجہ سے اپنی زندگیوں کے چراغ بجھا دئے کیوں کہ انہیں وقت پر نشیلی ادویات کا ڈوز مہیا نہ ہوسکا۔ یہ معاملہ سماج کے ہر فرد کیلئے ایک تازیانے سے کم نہیں۔ سماج کے ہر فرد کو بالخصوص والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی حرکات و سکنات پر کڑی نگاہ بنائے رکھیں۔ بچے کن کیساتھ گھوم پھر رہے ہیں، کن کی صحبت سے مستفید ہورہے ہیں، اُس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر کوچنگ مراکز پر کن اوقات کے دوران بچے حاضر رہے ہیں اور گھر واپسی کہاں تک ہوتی ہیں، والدین کو اس معاملہ میں سنجیدہ رہنے کی ضرورت ہے۔