تحریر:- دانش احمد پرے
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا،
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا۔
(علامہ اقبال)
اگر کامیابی کا راز کسی چیز میں پوشیدہ ہے تو وہ تعلیم اور علم حاصل کرنے میں ہے۔ پھر چاہے وہ دنیاوی کامیابی ہو یا دینی کامیابی، اس بات کا اعتراف تقریباً دنیا کا ہر ایک ذی شعور انسان کرتا ہے کہ ایک لاعلم اور اَن پڑھ انسان کو دنیا ایک نامکمل انسان سمجھتا ہے۔ اس انسان سے دنیا ویسا ہی سلوک کرتا ہے جیسے ایک گدھے کے ساتھ کیا جاتا ہے، غرض دنیا اس انسان کو بہت ہی چھوٹی نظر سے دیکھتا ہے۔
اگر بات ہم اپنے مذہب یعنی دین اسلام (جو کہ زندگی بسر کرنے کا بہترین اور مکمل طریقہ ہے) کی کرے تو اسلام میں تعلیم اور علم حاصل کرنے میں سخت طور پر تاکید و تلقین کیا گیا ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنا جو پہلا پیغام و حکم اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو وہ پیغام، حکم اور ہدایت تعلیم اور علم حاصل کرنے کا تھا۔ اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی علم کا حاصل کرنا ضروری یعنی فرض قرار دیا ہے۔ چاہے اخلاقی تعلیم ہو یا دنیاوی تعلیم دونو ہی انسان کے لیے انتہائی ضروری ہیں، تاکہ وہ اپنے ساتھ ساتھ قوم کو بھی ترقی یافتہ اور بہتر سے بہترین بنانے میں تعاون فراہم کرسکے۔
مگر اگر ہم اپنے وطن یعنی وادی کشمیر کی بات کرے، دنیا میں وادی کشمیر واحد ایسی جگہ ہے جہاں آج تک تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ اور جہاں کے طلباء سب سے زیادہ تعلیمی نقصان اور گھاٹے سے دوچار ہوئے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں۔یہاں کے حال و احوال کسی سے چھپے نہیں بلکہ عیاں ہیں۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا فرد ہو گا جو یہاں کے حالات سے واقف نہ ہو۔ اگر بات تعلیم کے حوالے سے چھیڑے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہماری تعلیم صرف ‘کورونا نامی بیماری کے سبب متاثر نہیں ہوئی بلکہ ہمارے اوپر وقتاً فوقتاً مختلف اور طرح طرح کے ظالم حاکموں نے مظالم اٹھائے۔ جس کی وجہ سے ہماری تعلیم عرصہ دراز سے بری طرح سے متاثر ہوتی ہوئی آرہی ہے۔اگر ملک کے دیگر ‘ریاستوں (States) اور ‘یونین ٹیریٹریز(Union Territories) کی بات کریں تو وہاں تعلیم صرف کورونا سے متاثر ہوئی۔ مگر ہمارے تعلیمی اداروں کے دروازوں پر ‘کورونا جیسی مہلک بیماری پھیلنے سے پہلے بھی تالے لگے ہوئے تھے اور آج بھی لگے ہیں۔ میں بحیثیت ایک طالب علم اور مظلوم وادی کا مظلوم بیٹا ظالم انتظامیہ کے ظالم منتظمین سے اس بات کا جواب چاہتا ہوں کہ اگر اب رفتہ رفتہ آپ نے ہر ایک شعبے سے منسلک تمام افراد کو اپنا اپنا کام انجام دینے کی اجازت دی ہے۔ تو تعلیمی اداروں کو مسلسل بند رکھنے میں آپ کے پاس کیا جواز ہے۔ اگر آپ کے خود کے بچے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، تو آپ کو غریب اور پسماندہ خاندان سے تعلق رکھنے والے طلبا کے تعلیم حاصل کرنے سے اعتراض کیوں؟
اگر بات کورونا وائرس کے احتیاطی تدابیرCOVID) SOP’s) کی کرے تو جب کورونا کی پہلی لہر تھمنے لگی تو کچھ دنوں کے لیے سرکار نے تعلیمی اداروں (اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں) کو درس و تدریس کے لئے کھول دیا تھا۔ جس میں یہ نتائج سامنے آئے اور یہ دیکھنے کو ملا کہ سب سے زیادہ تعلیمی اداروں میں احتیاطی تدابیر (COVID SOP’s) پر عمل ہو رہا تھا۔ مگر اب جب چند روز پہلے ‘کورونا کی دوسری شدید لہر بھی تھم گئی سرکار نے اولین فرصت میں باغات سیاحتی مقامات اور بازاروں وغیرہ کو کھول دیا۔ ان سارے مقامات پر احتیاطی تدابیر(COVID SOP’s) کی کس طرح دجیاں اڑائی جا رہی ہیں اس سے ہم سب بہت ہی اچھی طرح سے واقف ہیں۔ یہاں پر انتظامیہ پر یہ سوالیہ نشان ہے کہ اگر وہ سیاحتی مقامات، باغات، بازاروں یا دیگر جگہوں کو یہ جان کے بھی کھول رہے ہیں کہ ان مقامات پر لوگ ‘کورونا کے احتیاطی تدابیر(COVID SOP’s) پر عمل نہیں کر رہے ہیں. تو انتظامیہ تعلیمی اداروں کو درس و تدریس کے لئے کیوں نہیں کھول سکتی؟ کیا ‘وائرس (Virus) صرف تعلیمی اداروں میں ہے؟ کیا سیاحتی مقامات باغات اور بازار وغیرہ میں وائرس نہیں ہے۔؟
یہاں میرے کہنے کا بالکل بھی یہ مدا و مقصد نہیں کہ آپ ان ساری جگہوں کو پھر سے بند کرے بلکہ میرا اصل مقصد یہ ہے کہ اگر تعلیمی اداروں میں احتیاطی تدابیر(COVID SOP’s) پر سب سے زیادہ عمل ہورہا ہے تو آپ نے کیوں بند رکھا ہے تعلیمی اداروں کو؟ کیوں آپ بچوں کا مستقبل اندھیرے میں دھکیل رہے ہیں؟ کیا آپ تعلیم یافتہ سماج نہیں چاہتے؟آخر میں سرکار سے میری یہی گزارش رہے گی کہ برائے مہربانی جلد از جلد وادی میں تمام تعلیمی اداروں کو درس و تدریس کے لیے کھول دیا جائے۔تاکہ طلبہ کو مزید تعلیی نقصان اور گھاٹے سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ اور میرا وادی کے تعلیم یافتہ لوگوں سے بالخصوص اساتذہ کرام سے التماس ہے کہ جب تک تعلیمی ادارے بند ہے تب تک برائے مہربانی جتنا ممکن ہو سکے غریب اور پسماندہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کو اپنا تعاون دے۔ ان کو اللہ کی رضا کے لیے پڑھائے۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے،
پر نہیں طاقت پرواز مگر ضرور رکھتی ہے۔