جموں کشمیر کی موجودہ سرکار جس کی قیادت لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کررہے ہیں کا اوّل روز سے یہ ایجنڈا رہا ہے کہ سرکاری محکمہ جات میں کورپشن کو فروغ دینے والا افسران اور اہلکاران کیخلاف سخت کارروائی کی جائے۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران اس سلسلہ میں کئی سرکاری ملازمین کیخلاف کارروائی کی گئی جنہیں انٹی کرپشن بیورو کے اہلکاروں نے رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا ۔ اگرچہ سرکار کی یہ جنگ ابھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پائی ہے لیکن آئے روز ذرائع ابلاغ کے ذریعہ یہ خبریں موصول ہورہی ہیں کہ فلاں جگہ کسی نہ کسی سرکاری ملازم کو رشوت لیتے ہوئے پکڑا گیا ہے۔ اس طرح کی کارروائیاں نہ صرف تسلی بخش ہیں بلکہ ایسی کارروائیوں سے عوام کے اندر سرکار کے تئیں اعتماد بھی بحال ہورہا ہے جو کہ ایک خوش آئندہ بات ہے۔ سرکاری محکمہ جات میں کورپشن کو فروغ دینے سے کون کون سے مسائل اُبھر کرسامنے آرہے ہیں ‘ وہ کسی سے مخفی نہیں۔ کورپشن جیسے ناسور کی جڑیں کافی مضبوط ہیں۔ اس کیخلاف ٹھوس عزم اور ہمت درکار ہے تب ہی یہ ناسور سماج میں ختم ہوگا۔ جموں کشمیر کے سرکاری محکمہ جات میں ایسے بے شمار عناصر موجود ہیں جوعوامی خدمات کو انجام دینے کے بجائے کرپشن کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں۔ ایسے عناصر نے اپنی کرسیوں کا ناجائز استعمال کرکے دفاتر کے اندر کرپشن کے رواج کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے، تاہم لیفٹیننٹ گورنر کی بار بار تنبیہ سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ موجودہ حکومت ایسے عناصر کو مزید برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہے۔ یہی وجہ دے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے ایسے بدعنوان اور کرپٹ عناصر کیخلاف سخت کارروائی کا متعدد مرتبہ عوام کے سامنے اظہار کیا ہے۔ اس سلسلے میں موجودہ انتظامیہ کا یہ اقدام حوصلہ افزا ہے۔ماضی کی حکومتوں میں اگرچہ اس مسئلہ کی جانب کوئی ٹھوس توجہ نہیں دی جارہی تھی، جس کی وجہ سے عام لوگوں کے مسائل کئی کئی برس تک سرکاری دفاتر کے ٹیبل پر گرد چاٹتے نظر آتے تھے۔ عام لوگوں کی فائلیں ایک ٹیبل سے دوسرے ٹیبل تک اُسوقت تک منتقل نہیں ہوتی تھیں جب تک نہ متعلقہ افسران کی جیبوں کو گرم کیا جاتا تھا۔ اس طرح کے طرز عمل سے ماضی میں سرکاری دفاتر میں جاری کام کام بہت حد تک متاثر ہوتا تھا۔ لوگوں شام کو اپنے گھروں کو مایوس ہوکر لوٹتے تھے۔ ان کے مسائل کا نپٹارا برسوں میں بھی نہیں ہوتا تھا۔ خالی یقین دہانیوں کی وجہ سے عوام کے زخم ہرے کے ہرے ہی رہ جاتے تھے۔ عوام آسمان سے کوئی چاند تارا لانے کا مطالبہ نہیں کرتے تھے بلکہ صرف ایسے عناصر کی لگام کسنے اور دفاتر میں منصفانہ کام کاج کو بحال کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق موجودہ سرکار نے اس بات کا عزم کیا ہے کہ وہ ایسے عناصر کی سرکوبی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑے گی جو سرکاری خزانے سے ماہانہ لاکھوں روپے کی تنخواہیں وصول کرنے کے باوجود سرکاری دفاتر میں لوگوں کا کام کرنے کے عوض کورپشن کا مطالبہ کریں گے۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران اس معاملہ پر کافی پیش رفت ہوئی ہے اور اُمید ہے کہ مستقبل میں بھی اس معاملہ پر خصوصی نظریں مرکوز رکھی جائیں گی تاکہ عام لوگوں کو کوئی مشکلات پیش نہ آجائے۔