نیوز ڈیسک//
سرینگر/25/اکتوبر//وادی کے بڑے شہروں قصبوں کی خوبصورتی بالعموم اور سمارٹ سٹی سرینگر کاقیام فٹ پاتھوں پرقبضے کے باعث اور سڑکوں پر کا رپارکنگ کی وجہ سے بے معنی ہوکر رہ گیاہے سینکڑوں کروڑروپے خرچ کرنے کے باوجوداگر سرینگرکوسمارٹ سٹی کے زمرے میں شامل کیایاتواس شہرمیں نہ توٹریفک جام ہوناچاہئے تھااو رپید ل چلنے والوں کے لئے راستہ کھلاہوناچاہئے سٹریٹ لائٹس پختہ سڑکیں ہولوگوں کو24×7بجلی پانی دستیاب ہو رات کے بارہ بجے تک ٹرانسپورٹ کی سہولیت دستیاب ہو تاکہ سمارٹ سٹی کا نام روشن ہوسکے ۔اے پی آئی نیوز کے مطابق کشمیر کوجنت کانظارہ کہا جاتاہے ا سکا ایک ایک اَنگ قدرتی مناظر اورخوبصورتی سے پر ہے تاہم وادی کشمیرکی خوبصورتی کوزائل کرنے میں کسی بیرونی ملک یاملک کے شہریوں کاہاتھ نہیں بلکہ ہم اسے ذمہ دار ہے ۔وادی کے بڑے شہروں قصبوں میں فٹ پاتھ برسوں سے قبضے میں لئے گئے ہے اور فٹ پاتھ پر اپناکاروبا رسجانے والے سینکڑوں افراد کو سرکاروں کے وقت وقت پردوسری جگہوںپربھی منتقل کیاتاکہ وہ اپنی پیٹ کی آگ کوبجھاسکے تاہم والد دوسری جگہ منتقل ہونے پر بیٹھے نے اسی جگہ پرقبضہ جمایاجہاں ان کاوالدریڈی لگایاکرا تھااور آج بڑے شہروں اور قصبوں کی صورتحالی ہے کہ دو لاکھ سے زیادہ افراد بالعموم اور تین سے چا لاکھ کے قریب بالخصوص سڑکوں چوراہوں فٹ پاتھوں پرریڈیاں لگائے بیٹھے ہے او راپنی پیٹ کی آگ کوبجھارہے ہے ۔سننے میں آیاہے کہ میونسپل کمیٹیاں میونسپل کارپوریشن بھی شامل ہے چھاپڑی فروشوں سے باضابطہ طو پرکرایہ وصول کرتے ہے ان کی رجسٹریشن ہے اگرفٹ پاتھ ریڈیا لگانے والوں کے لئے قائم کئے گئے ہے توپیدل چلنے والے لوگوں کے لئے راستہ کون سا ہے۔ سرینگر اب سمار ٹ سٹی بن گیاہے یہاں جدیدسہولیات دستیاب رکھے گئے ہے سائیکل چلانے والوں کے لئے الگ فٹ پاتھ گاڑیوں کے لئے سڑکیں پیدل چلنے والوں کیلئے نہ توفٹ پاتھ نہ سڑک دستیاب ہے ایک طرف مال مسافر برادر اورنجی گاڑیاں ان سڑکوںپردوڑرہی ہے اوردوسری جانب گاڑیاں لگانے والوں نے اب پرقبضہ کیاہے جسکے نتیجے میں سمارٹ سٹی کاقیام عمل میںلانے کی کارروائی بے معنی ہوکررہ گئی ہے ۔شہرسرینگر میں 95%سڑکیں خستہ ہے ساٹھ فیصدعلاقوںمیں لوگوںکومتواترپانی دستیاب نہیں ہے بجلی کی کٹوتی کالامنتہائی سلسلہ جاری ہے صفائی کافقدان ہے اورپھراسے سمارت سٹی کانام دینازیادتی ہوگی یہی حال دوسرے شہروں او رقصبوں کاہے کہ اگرفٹ پاتھ پر ریڈیاں لگانے والوں کورجسٹرکیاگیاہے اس سے کرایہ لیاجاتاہے توپھراسے غیرقانونی کیوں قراردیا جاتاہے ۔لوگوں کے لئے متبادل کے طو پرکیااقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ عوامی حلقوں کایہ بھی کہناہے کہ سرکار کی جانب سے شہرسرینگر کے ایک دوعلاقوں میں کا رپارکنگ کاانتظام کیاگیا دیگرشہروں قصبوں میں اسطرح کی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔21وی صدی میں گزرنا والے لوگوں کااگرپیدل چلنے کے لئے فٹ پاتھ دستیاب نہ ہو رات 7بجے کے بعدمسافر بردارگاڑیوں سڑکوں سے غائب ہو،اسپتالوں کے ڈاکٹرناہوہوٹلوں کے دروازے بند ہوتویہ کون سی ترقی ہے جسکی ہم دعویٰ کررے ہیں یہ کون ساامن ہے جس کاہم ڈھنڈور ہ پیٹتے ہیں۔ مختلف مکتب ہائی فکرسے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کہاکہ اب شہروں میں گزرنے سے دم گھٹ رہاہے ایسا ا سلئے کہ عام انسان کے لئے چلنادشواربن گیاہے ا سے ہمیشہ یہ خطرہ رہتاہے کہ اس سے گاری ٹکرماردے گی اور ان کی جان چلی جائے گی ۔ایک طرف غیرقانونی طو پرگاڑیاں پارکنگ کی جاتی ہے اور گاڑیوں کی آوہ جاہی بھی جاری رہتی ہے ایسے صورتحال میں انسان کرے توکیاکرے حکومت سے اگرسوال کرے یاحکومت سے اسکاسدباب چاہئے تو سرکار یاتو جواب دینے کے لئے تیار نہیں یاسرکارکے کل پرزے رشوت بدعوانیوں اور پیٹ کی آگ کوبجھانے میں اسقدرمبتلاہوگئے ہے کہ وہ تمیزکرنا بھول گئے ۔مہذب قوموں کی نشانی یہ ہواکرتی ہے کہ قوائدوضوابط پرمن وعن عمل کرے جواپنے لئے پسند کر تے ہے وہ دوسروں کے لئے بھی ا سکاانتظام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔