اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازعہ پر چھڑی بحث کو امریکی صدر جو بائیڈن نے نیا موڑ دے دیا ہے۔ حماس اور روس کو ایک پیمانے پر تولتے ہوئے بائیڈن نے دونوں کو جمہوریت کا دشمن قرار دیا ہے۔ اس تنازعہ کی وجہ سے گہرے ہوتے تیسری عالمی جنگ کے خدشہ کے درمیان اس موازنہ سے دور رس پیغامات ہو سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسی ہفتے اسرائیل کے دورہ پر پہنچے بائیڈن نے حماس کو سزا دینے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ حالانکہ، ساتھ میں انہوں نے اسرائیلیوں کو خبردار بھی کیا ہے کہ حماس پر جوابی کارروائی کے دوران وہ وہی غلطیاں نہ دہرائے جو امریکہ نے 11/9 کے حملوں کے بعد کی تھی۔ غزہ پر بے لگام حملے پر تلا اسرائیل کو درحقیقت یہ بائیڈن کا مشورہ ہے کہ حماس اور فلسطینیوں کو الگ رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
پچھلے 15 دنوں سے جاری تنازع میں یہ شاید پہلا پڑاؤ ہے جہاں جنگ کے شور کے درمیان امن کی پکار سنائی دی ہے۔ یہ اس لیے بھی ناگزیر ہو گیا تھا کہ اسرائیل غزہ پٹی پر مسلسل حملے کر کے حماس کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کر رہا ہے، لیکن اس سے ایک طرف فلسطین کو جان و مال کا بے پناہ نقصان ہو رہا ہے، دوسری طرف اسرائیل کے پاس نہ کوئی واضح ایگزٹ پلان نظر نہیں آ رہا۔ نہ ہی ایسا کوئی منصوبہ نظر آرہا جس میں کہ جنگ جیتنے کے بعد تباہ شدہ فلسطینی سرزمین پر کس طرح حکومت کی جائے گی؟
تاہم فی الحال اس بات کے آثار بہت کم نظر آرہے ہیں کہ اسرائیل حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنے میں کامیاب ہوگا۔ غزہ کے کسی بھی علاقے پر اس کے قبضے کا امکان بھی دور کی کوڑی ہی لگ رہی ہے۔ ایک ممکنہ منظر یہ ہو سکتا ہے کہ اسرائیلی افواج حماس کے زیادہ سے زیادہ ارکان کو ہلاک یا گرفتار کر لیں، غزہ میں فوجی کارروائیوں کو پیچیدہ بنانے والی سرنگوں کو تباہ کر دیں، اور پھر اسرائیلی ہلاکتوں میں اضافے پر فتح کا باضابطہ اعلان کرنے کے بعد نکلنے کا راستہ تلاش کرے۔ لیکن بڑا خدشہ اس بات کا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہونے تک حماس کے حامی حزب اللہ اور ایران غزہ کی سرحد سے باہر جنگ کے نئے محاذ نہ کھول دیں۔ عرب ممالک کے بارے میں بھی کوئی یقین دہانی نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کے کئی رہنما حماس کے حملے کی مذمت کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر نشانہ بنانے کی شدید مخالفت کر چکے ہیں۔ اگر اسرائیل باز نہ آیا اور فلسطینیوں کی لاشیں بڑھتی رہیں تو نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کا امن داؤ پر لگ سکتا ہے۔
اسرائیل کی گزشتہ دو بڑی جنگوں میں ایک اہم مماثلت ہے۔ دونوں کو ایران کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروپوں نے شروع کیا ہے- 2006 میں حزب اللہ اور اب حماس۔ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کہ دونوں حملے اس خطے میں اسرائیل کے تئیں عرب ممالک کے رویے میں تبدیلی کا ردعمل معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم اسلام کی جائے پیدائش سعودی عرب سے اسرائیل کو مل رہی قبولیت کو مانا جا سکتا۔ ساتھ ہی بائیڈن کی مشرق وسطیٰ کی سفارت کاری سے ایران بھی گھر رہا تھا اور فلسطینیوں کے پیچھے رہ جانے کا خوف ستا رہا تھا۔
مشرق وسطیٰ میں ہندوستان کے بڑھتی حصہ داری کو دیکھتے ہوئے ہمارے لیے بھی پیشرفت ایک سفارتی چیلنج بن کر آیا ہے۔ عرب ممالک کے ساتھ ہندوستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کی روشن ترین کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ اس کی وجہ سے ہندوستان نے اس میدان میں ایک الگ غلبہ حاصل کیا ہے۔ حالانکہ، اس معاملے میں حکومت کے ردعمل پر ملکی سیاست میں کافی بحث ہو رہی ہے۔ میری رائے میں اس موضوع پر کسی بھی بحث میں الجھنے کے بجائے سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں دہشت گردانہ حملوں پر ہمارا موقف کیا ہونا چاہیے؟ ماضی میں بھی کیا اس حوالے سے ہمارا موقف اس بات سے بدلا ہے کہ مظلوم ملک دوست ملک ہے یا نہیں؟ شاید نہیں۔ اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کے ساتھ ساتھ ہندوستان نے فلسطین میں شہریوں کی ہلاکتوں پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ غزہ کے اسپتال پر وحشیانہ حملے پر بھارت کا شدید ردعمل اس کا ثبوت ہے۔ ہندوستان کو بھی کئی بار ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ دہشت گردی کا تنہا مقابلہ کرنا کتنا مشکل کام لگتا ہے۔ کارگل کی جنگ کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے جب اسرائیل نے اسلحہ اور گولہ بارود دے کر ہمارا ساتھ دیا تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے، دونوں ممالک انسداد دہشت گردی اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے میدان میں فعال طور پر تعاون کر رہے ہیں۔ بھارت کو اسرائیل سے سالانہ ایک بلین ڈالر سے زیادہ کا فوجی سازوسامان ملتا ہے۔ بھارت کو اسرائیل کے ساتھ اپنی اسٹریٹجک شراکت داری سے بھی نمایاں فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ اس بحث میں ہندوستان-مشرق وسطیٰ-یورپ اقتصادی راہداری بھی شامل ہے، جس کی بنیاد ہی سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے پر ٹکی ہے اور موجودہ تنازعہ کی وجہ سے جس کے بے پٹری ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ہماری خارجہ پالیسی کا کمال رہا ہے کہ ہم بیک وقت ایران، عرب ممالک اور اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تنازع جتنا آگے بڑھے گا، ہندوستانی سفارت کاری کا امتحان اتنا ہی سخت ہوتا جائے گا۔
ان خدشات کے درمیان یہ تصور پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ اگر یوکرین پر روسی حملے نے ملکوں کے درمیان دراڑ کو اجا گر کر دیا تھا تو اسرائیل فلسطین تنازع نے اسے مزید وسیع کر دیا ہے۔ خاص طور پر ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ابھرتے ہوئے ممالک پرانے رجحان پر چلنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں امریکہ کے امن اقدام کے باوجود پورے مشرق وسطیٰ میں اس بات کے واضح خدشات موجود ہیں کہ یہ خطہ ایک وسیع جنگ میں پھنس سکتا ہے۔ ایسی جنگ جو اسرائیل کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک اردن اور مصر، لبنان اور یہاں تک کہ اکسانے والے ایران کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ خلیج کے عرب ممالک کو ملکی سلامتی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ خوف بالکل ویسا ہی ہے جیسا امریکہ نے 9/11 کے جوابی حملوں کے بعد تجربہ کیا تھا۔
بھارت ایکسپریس۔