سری نگر، 24 جنوری//
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ میں واقع خوبصورت وادی گریز کی سیاحتی وسعت و گنجائش کے فروغ کے لئے ایک اسٹیڈی (تحقیق) نے ایک ٹنل کی تعمیر کی سفارش کی ہے تاکہ یہ وادی ایک ہمہ موسمی سیاحتی مقام بن سکے۔اسٹریٹجک لحاظ سے اہم وادی گریز کو، جو پیر پنجال رینج کی بلند چوٹیوں سے سے گھری ہوئی ہے، لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب واقع ہونے کے باعث کئی برسوں تک پہنچ سے باہر رہنے کے بعد حکام نے گذشتہ کچھ برسوں سے سیاحوں کے لئے کھول دیا ہے۔سری نگر سے 135 کلو میٹر دوری پر واقع وادی گریز میں امن سایہ فگن رہنے سے سیاحوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق سال 2023 میں سیاحوں کی تعداد بڑھ کر 46 ہزار 38 ہوگئی ہے جو سال 2022 میں صرف 12 ہزار 4 سو 72 تھی جبکہ سال 2019 – 2020 میں 5 ہزار سیاح گریز کی سیر سے لطف اندوز ہوگئے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال گذشتہ روزانہ بنیادوں 2 ہزار سے 22 سو سیاح گریز کی سیر کرتے تھے۔گریز میں سیاحوں کے بڑھتے ہوئے رش کے پیش نظر اس سرحدی علاقے میں سیاحوں کی سہولیت کے لئے کئی ‘ہوم سٹیز’، کیمپنگ سائیٹس، ہوٹلوں اور ریستوران کو قائم کئے گئیے ہین جس سے لوگوں کا روز گار بڑھ گیا۔امپیکٹ اسٹیڈی نے گریز وادی کی زرعی اراضی کو تبدیل کرنے پر پابندی لگانے کی بھی سفارش کی ہے۔یہ نتائج اس وقت امنے آئے ہیں جب ضلع انتظامیہ بانڈی پورہ نے پالیسی ایڈوکیسی ریسرچ سینٹر (پی اے آر سی) کے تعاون سے وادی گریز میں سیاحت کے فروغ کے لئے مختلف حکومتی مداخلتوں کے اثرات کا مطالعہ کرنے کی پہل کی ہے۔اسٹیڈی نے سفارش کی ہے کہ گریز کو ہمہ موسمی سیاحتی مقام بنانے کے لئے سال بھر کے لئے سڑک رابطے کی ضرورت ہے جس کے لئے بانڈی پورہ سے گریز تک ایک سرنگ تعمیر کرنا ناگزیز ہے۔گریز کو بانڈی پورہ کے ساتھ جوڑنے والا واحد سڑک رابطہ راز دان پاس سے گذرتا ہے جو موسم سرما میں بھاری برف باری کے باعث بند رہتا ہے۔وادی گریز قدیم شاہراہ سلک روٹ پر پڑتی ہے جو کشمیر کو گلگت کے ساتھ جوڑتا ہے۔تحقیق نے اتوتھو سے باگتور کے درمیان ایک روپ وے بنانے کی بھی سفارش کی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سے نہ صرف شعبہ سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ علاقے میں رابطہ برح جائے گا نیز کرگل کی طرف وادی مشکی تک گریز – دراس روڈ کو کھولنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔اسٹیڈی کے مطابق سال 2022 میں انفراسٹرکچر کے بڑھاوے کے لئے 35 کروڑ روپیے اور گریز میں سیاحت کے فروغ کے لئے 22 لاکھ روپیے سرمایہ کاری کی گئی ہے۔تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ بانڈی پورہ – گریز روڈ پر سفر کرنے کے لئے سیاحوں کی طرف سے روزانہ 160 کالیں موصول ہوتی تھیں۔اسٹیڈی سے ظاہر ہوا ہے کہ دہلی، لکھنو، پونے، حیدر آباد، بنگلورو، گوہاٹی، تھروانن تھا پورم اور چنئی کے ٹور آپریٹروں نے گریز سیاح بھیجے ہیں۔اسٹیڈی میں غکر ملکی سیاحوں کو بھی اجازت دینے کی سفارش کی گئی ہے اور جو بھی پالیسی اس میں مانع آتی ہے اس پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے۔ یو این آئی