سری نگر؍جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے (یوٹی) میں وزیر اعلیٰ کو کام کرنے میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے، کیونکہ افسران ہر کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے "دس بہانے” تلاش کرتے ہیں۔یہ بات انہوں نے پلوامہ میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کے دوران کہی۔عمر عبداللہ نے کہا کہ یوٹی کے نظام میں وزیر اعلیٰ کے پاس محدود اختیارات ہوتے ہیں اور اکثر اوقات سرکاری افسران تعاون کے بجائے رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔انہوں نے کہا، "ریاست اور یوٹی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ریاست میں وزیر اعلیٰ کے پاس مکمل اختیارات ہوتے ہیں، جبکہ یوٹی میں افسران ہر معاملے میں رکاوٹ ڈالنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔”انہوں نے مزید کہا کہ حکومت جلد ہی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے ایک قانون متعارف کروائے گی۔عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ ہماچل پردیش میں صنعتوں اور ہوٹلوں کے قیام کے وقت لازمی ہوتا ہے کہ 70 فیصد ملازمتیں مقامی لوگوں کو دی جائیں، اور اگر کوئی اس قانون پر عمل نہ کرے تو اس کی فیکٹری بند کی جاتی ہے۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ "اگر یہ قانون ہماچل کے لیے موزوں ہے تو جموں و کشمیر کو اس سے محروم کیوں رکھا جا رہا ہے؟”ریاستی درجے کی بحالی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ "جموں و کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ ملے، یہی ہماری کم از کم منزل ہے اور اسی کے ذریعے ہم اپنی اصل منزل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔مائننگ کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ دریاوں پر سب سے پہلا حق مقامی لوگوں کا ہونا چاہیے تاکہ وہ ریت اور بجری نکال کر روزگار حاصل کر سکیں۔