قوموں کے مستقبل میں تاریکی کا سبب!
تحریر:-فہیم الاسلام اچھن پلوامہ
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زن
کہتے ہیں اس علم کو اربابِ نظر موت
کسی بھی دور میں میں علم کی افادیت اور روحانیت سے انحراف نہیں کیا جاسکتا اور تعلیم ہمیشہ اس سماج کی زندہ دلی کا ثبوت دیتی ہے جہاں پہ تعلیم یافتہ نوجوان ہوں۔ تعلیم کے معنی اور اہمیت سے تو ہم سب لوگ واقف ہیں ہے . بچپن سے اب تک پڑھتے آ رھے رہے ہیں کی اصل میں تعلیم کا معنی کیا ہے اس کی اہمیت کا ہے؟ اور اگر ہر کسی سماج کے گروہ میں دیکھا جائے تو تعلیم ایک منفرد اور اعلی مقام رکھتی ہے۔ لیکن جو بات آج کے موجودہ سماج میں میں قابل لب کشائی اور قابل غور ہے تو وہ تعلیم کا مقصد ہے۔ تعلیم کے مقصد کے بارے میں آج کسی بھی جگہ بات نہیں ہو رہی ہے چاہے وہ ہمارے گھر کی چار دیواری ہو ،چاہیے سماج کے مختلف شعبہ جات ہو یا ہمارے دنیاوی اور دینی درسگاہیں ہوں جہاں پہ اس تعلیم کے اصل مقصد کا فقدان ہمیں آج مل رہا ہے۔تعلیم حاصل کرنے سے کوئی بھی دنیا میں ایسا فرد نہیں مل پائے گا جو تعلیم حاصل کرنے سے انکار کرتا ہو اور خاص کر وہ قوم و ملت جس کے نبوت کا سلسلہ، جس کی وحی کا سلسلہ تعلیم سے ہی شروع ہوا ہو۔ جس میں تعلیم کی اہمیت و افادیت حد درجہ معنی رکھتی ہے ۔ اللہ تبارک و تعالی نے پہلے ہی وحی نازل کی اور فرمایا گیا” أقر باسم ربك الذي خلق” (سورة العلق ) پڑھو! اپنے رب کے نام سے جس نے آپ کو پیدا کیا۔ مطلب جو بھی دنیا میں آپ فلسفہ پڑھنا چاہتے ہیں چاہے وہ ساینس ہو،ٹیکنالوجی ہو یا باقی جدید علوم لیکن اپنے خداوندے پاک کے نام سے جس نے آپ کو پیدا کیا۔ یہ بات قابل غور ہے یہاں پے اس ملت کے لوگوں کو کسی بھی علم و فنون کو پڑھنے سے انکار نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ دنیا میں جو بھی چیز حاصل کرنا چاہتے ہیں جو بھی علم و فنون پڑھنا چاہتے ہیں آپ پڑھیں لیکن اس خدا کے نام سے جس نے آپ کو پیدا کیا جس نے آپ کی تخلیق فرمائی ہے۔ تو اس ملت اور قوم کا کیا آج حال ہے اس کا آج وہ معیار کہاں پر نظر آ رہا ہے اس پے کچھ باتیں عرض کرنا چاہوں گا کہ تعلیم کا اصل مقصد اسلامی نقطہ نظر سے کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا، یعنی کہ جو تمام مخلوقات سے بالاتر ہے۔اور اس انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد وجود کو پہچان لے، کہ مجھے کس غرض سے دنیا میں بھیجا گیا ہے اور اللہ تبارک و تعالی مجھ سے دنیا میں کیا کام لینا چاہتا ہے۔اور اس مقصد وجود کو سمجھانے کے لئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار اللہ تبارک و تعالی کے پاک اور برگزیدہ بندے ہمارے سامنے اس مقصد وجود کو سمجھانے کے لیے بھیجے گئے۔تو وقتا فوقتا یہ سلسلہ جاری رہا اور آخر پر امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا سلسلہ رک گیا۔یعنی کہ جو کام ایک نبی کا تھا وہ کام اب امت مسلمہ کے ہر فرد کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے انسان اس دنیا میں ترقی کے پہاڑ چوم لیتا ہے۔اور ہمیشہ سے اس تعلیم کا مقصد یہی رہا ہے کہ جس سے ایک انسان ایک صالح بندہ بنے اپنے حقیقی مالک کو پہچان سکے اپنے پروردگار عالم جس نے اس کو دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا اس کے تمام اوصاف، اس کے تمام تر نعمتیں ہیں ان کو پہچان کر اللہ تبارک و تعالی کے اور زیادہ قریب ہو جائے قربت حاصل کریں۔
لیکن امت مسلمہ کے موجودہ سماج کی حالت اور وقار کو دیکھا جائے تو صد افسوس کی بات ہے کہ جس تعلیم سے ایک انسان اور خاص کر امت مسلمہ کے ہر فرد میں مقصد وجود کا لباس پیوست ہوتا تھا جس تعلیم سے امت مسلمہ کی بنت حوا کو حفاظت ملتی تھی آج وہی تعلیم اس کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے کیونکہ جس مقصد کے غرض سے اس تعلیم کو حاصل کیا جانا چاہئے اور اس کا فقدان ہے جس تعلیم سے انسان کی آنکھوں میں حیا اور دل میں اللہ کا نور پیوست ہوتا ہے آج اس تعلیم سے ایک انسان انسانیت کے دائرے میں بھی نہیں آتا ہے بلکہ آج کے موجودہ سماج کے اس تعلیم نے انسان کو معاشی حیوان بنا دیا ہے اور جو تعلیم کا اصل مقصد ہے اس سے بہت زیادہ دور ہو چکا ہے۔اس لاپرواہی کے پیچھے ہم سب ذمہ دار ہیں ہے چاہے وہ والدین یا پیغمبروں کے اس مشن کو آگے بڑھانے والے ہمارے اساتذہ صاحبان ہوں۔ ہم سب اس میں برابر کے ذمہ دار ہے جو بچے صبح سے لے کر شام تک اس تعلیم کے نور کو حاصل کرنا چاہتے ہیں ان درسگاہوں اور ان تمام اسکولوں اور کالجز میں آج اخلاقیات کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ یہ بات قابل غور و فکر ہے کہ جن والدین کے کاندھوں پر اس بچے کے اخلاق و تربیت کی ذمہ داری عائد تھی آج وہ اس بچے کو اس مقام سے خود اپنے ہاتھوں سے گراتا ہے جہاں پے ماڈرن سوسائٹی کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے اور انسان اور خاص کر اس بچے کے اخلاق کو اس سے دور کیا جاتا ہے۔ کتنے ایسے اسکول ہے کتنے ایسے کالجز اور یونیورسٹیز ہے جہاں سے ہر مہینے ہر سال بہت سے ایسے تعلیم یافتہ نوجوان اپنی گھر کی طرف روانہ ہوتے ہیں بڑی بڑی سندیں لے کر اپنے گھروں کی اور جانا اور اخلاق اور تربیت کے زیور کو اپنی زندگی سے دور رکھنا تعلیم نہیں بلکہ موت ہے۔ جو تعلیم یافتہ نوجوان بڑی ڈگری حاصل کر کے اپنے مقصد وجود سے غافل ہو اسے تعلیم یافتہ نہیں بلکہ ان پڑھ کہنا یہاں پر مناسب لگتا ہے۔ کیونکہ جس غرض و غایت کے لئے انسان اس دنیا میں بھیجا گیا تھا جب وہ پورا نہیں ہوتا ہے تو اسی لیے اس علم کو علم نہیں اس علم کو زندگی نہیں بلکہ موت کہہ دینا ہی بہتر ہے۔ جس تعلیم یافتہ نوجوان کے آنکھوں میں ڈگری حاصل کر کے ماں باپ کی عزت اور سماج میں ہونے والی برائیوں کی خاطر لڑنے کا جذبہ پیدا نہ ہو اس نوجوان کو تعلیم یافتہ نہیں بلکہ ان پڑھ کہہ دینا بہتر لگتا ہے۔
جس تعلیم سے ایک انسان اور حیوان میں فرق کی جاتی ہے ہے اس تعلیم کا مقصد صرف یہی ہے کہ انسان اپنے ہوش و حواس سے اپنے مقصد وجود کو پہچان لے۔جہاں بھی وہ دنیا میں جو بھی فلسفہ پڑھنا چاہتا ہے اور جس قسم کی بھی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے ہمیشہ سے مقصد یہی ہونا چاہیے کہ اس سے میں حقیقی مالک کو پہچان سکوں گا اس سے میں دنیا بھی اور آخرت بھی بہتر بنا سکتا ہوں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جو والدین ان بچوں کے اخلاقیات میں کوتاہی برتتے ہیں۔ اور وہ اساتذہ جن کے ہاتھوں میں قوم کا مستقبل ہے وہیں اس کے اصل مقصد کو بچوں سے دور رکھتے ہیں۔اگر مسلم امت کی بات کی جائے اگر اس کے روشن ماضی کو دوبارہ سے تازہ کیا جائے تو کتنے ایسے لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے مختلف شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرکے اسلام کا پرچم بلند کیا ہے ، اسلام کی خاطر اپنی زندگیوں کو نچھاور کیا ہے اور اس تعلیم سے حقیقی مالک کو پہچان سکے، کتنے ایسے بڑے سکالرز اور سائنسدان ہے جو ملت اسلامیہ کو چاند پر لے گئے۔ان جیسے تعلیم یافتہ مسلم سائنسدان سے ملت اسلامیہ کا ماضی منور ہے لیکن اگر آج موجودہ سماج کی طرف ہم دوبارہ نظر دوڑائیے تو کتنے ایسے "So called intellectuals ہے جو بڑی یونیورسٹیز میں بڑی ڈگریاں حاصل کر کے اسلام کی بنیادی تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔جن کی آنکھوں سے حیا کی چادر ہٹ جاتی ہے اور جس بنت حوا کے سر سے دوپٹہ سرک جاتا ہے جس کی وجہ سے سے دل کے اندر شگاف پڑ جاتے ہیں اور وہ انسان ظاہری تو ایک انسان ہوتا ہے لیکن دیکھا جائے تو مردہ ہوتا ہے، اور ملت اسلامیہ کے اس خلافت کے منصب کو حاصل کرنے میں کوئی رول نہیں نبا پایے گا۔
ایسا سماج جہاں پہ تعلیم یافتہ نوجوان کرپشن کی دلدل میں پھنس چکا ہے جہاں پے تعلیم یافتہ نوجوان بے حیائ کے اڈے چلاتا ہے،اس سماج میں تعلیم اور تعلیم یافتہ افراد کی کمی نہیں ہے بلکہ ان نوجوانوں کی کمی ہے جو تعلیم حاصل کرکے سماج کی اس ڈوبتی کشتی کو صحیح راستہ اور کنارہ دکھا سکے جو سماج کو ظلمت سے نکال کر اس نور کی طرف لے کے چلے جائے، جہاں عدل و انصاف، ایمانداری کا پیمانہ ہو اور وہ تب تک لاحاصل ہے جب تک تعلیم سے معاشی حیوان جیسی سوچ رکھنے والے نوجوان صحیح راستہ نہ پائے ۔اور ہمارے اندر اس تعلیم کا مقصد بس یہی ہوگا کہ ہم دنیا میں اپنے مقصد وجود کو پہچان سکے اور حقیقی خالق کو پہچان سکے۔ یہ سب تب ہی ممکن ہے جب تجارت اور تعلیم الگ الگ کیا جائے گا تعلیم کو بس ایک انسان کی انسانیت کو بنانے کے لئے لیے حاصل کیا جائے اور سماج میں مختلف برائیوں سے لڑنے کے لیے ایک ہتھیار مانا جائے اور اس خلافت کے منصب کو حاصل کرنے کے لیے تعلیم حاصل کی جائے تو ایک ایسا انشاءاللہ سماج قائم ہوگا جس میں عدل و انصاف اور ایمانداری کا پیمانہ ہوگا۔جہاں پہ بہنیں محفوظ ہوں گی اور نوجوان اپنے ملت و قوم کی ترقی کے لئے کوشاں ہوں گے۔
فہیم الاسلام اچھن پلوامہ
طالب علم شعبہ سیاسیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
فون نمبر 8082096361